یہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنی اکثریت کیساتھ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا ہے مگر ان کی عوامی سطح پر اس طرح پذیرائی نہیں ہورہی جس طرح ہونی چاہیے تھی۔

ہمیں تو چاہیے تھا کہ ہم ہر جج کے گھر جاتے، اس کو پھولوں کا گلدستہ پیش کرتے اور ان کی ہرطرح سے دلجوئی کرتے تاکہ مستقبل میں ان کی پیروی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی اور معاشرے میں ایماندار لوگوں کی پھر سے عزت افزائی شروع ہوجاتی۔ مگر ہم اپنی روزی روٹی کمانے میں اتنے مشغول ہیں کہ ہمارے پاس ان ججوں کی اصول پرستی کی کم از کم ان کے منہ پر تعریف کرنے کا وقت ہی نہیں ہے۔

 ہمیں اب بھی ڈر ہے کہ ماضی کی طرح ہم اس دفعہ بھی ان ججوں کی اس بہت بڑی قربانی کوبھول جائیں گے۔ جنرل مشرف صاحب نے جو ٹارگٹ حاصل کرنے تھے وہ ایمرجنسی لگا کر حاصل کرلیے یعنی انہوں نے آئین معطل کرکے اور پی سی او کے تحت ججوں سے حلف لیکر اپنی اگلے پانچ سال کیلیے صدارت پکی کرلی اور ساتھ ہی چیف جسٹس سمیت ناپسندیدہ ججوں سے جان چھڑا لی۔ اب وہ صاف الیکشن کرائیں یا ایمرجنسی اٹھا کر میڈیا کو آزاد کردیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مارے تو بیچارے جج گئے جن کی لگی لگائی روزی ایک ایسے اصول کی بھینٹ چڑھ گئی جسے عرف عام میں لوگ بیوقوفی سے تعبیر کرتے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں سے کتنی اپنے منشور میں پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والوں کو حکومت قائم ہونے پر بحال کرنے کا وعدہ کرتی ہیں اور حلف اٹھانے والوں کو اسی طرح معزول کرتی ہیں جس طرح جنرل مشرف نے اصولوں پر قائم رہنے والوں کو معزول کیا ہے۔

ہمارا ماضی تو یہی بتاتا ہے کہ ہم اصول پرست لوگوں کو بھول جاتے ہیں کیونکہ یہی اصول وقت پڑنے پر ہمارے بھی آگے آتے ہیں۔ فرض کریں اس دفعہ بینظیر کی حکومت قائم ہوجاتی ہے تو کیا وہ چاہیں گی کہ عدلیہ ان کی حکومت کے غلط کارناموں کے پیچھے پڑجائے؟ اسی لیے وہ بھی اپنی مرضی کے ججوں کا تقرر کریں گی ناں کہ ایسے ججوں کا جو ہروقت ان کی حکومت کا احتساب کرتے رہیں۔ یہی حال دوسرے سیاستدانوں کا لگتا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ موجودہ سیاستدانوں کی کھیپ میں کسی کا دامن صاف نہیں ہے اور نہ ہی کوئی محب وطن دکھائی دیتا ہے۔ یہ ٹھگوں کا ٹولہ ہے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلیے اگلے انتخابات میں حصہ لے گا۔

ایسے ججوں کی اسی روز شنوائی ہوگی جس دن یا تو عام پبلک کا ضمیر جاگ گیا یا پھر کوئی بے لوث اور محب وطن حکمران ہمیں مل گیا۔ تب تک تحصیل سے لیکر سپریم کورٹ تک کرپٹ ججوں کی پذٰیرائی ہوتی رہے گی اور نیک ججوں کے تبادلے۔

ہاں ایک حل اس وقت ضرور ہے ان ججوں کے اصولوں کی پذیرائی کا۔ یہ جج خود میدان میں اتریں اور وکلا کیساتھ ملکر جسٹس پارٹی بنالیں۔ جج اور وکلا ہمارے معاشرے کی کریم ہیں اور سب سے پڑھے لکھے اور سجھدار بھی، اگر ان میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا ہوجائے تو ہمیں ایک محب وطن اور مخلص پارٹی کے حکمران نصیب ہوسکتے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں اس طرح کے مشورے ایک خواب سے آگے جانے والے نہیں۔ کیونکہ موجودہ معاشرہ سوفیصد کرپٹ ہوچکا ہے اور اسے سدھرنے کیلیے بہت لمبا عرصہ درکار ہے۔ تب تک پتہ نہیں کتنے غدار اور خودغرض حکمران ہم پر حکومت کرتے ہوئے معاشرے کے جلد سنورنےمیں رکاوٹ بنتے رہیں گے۔