موجودہ انتخابات جو فوجی حکومت کے نو سالہ اقتدار کے بعد ہورہے ہیں میں ووٹ دینے کا فیصلہ کرنے سے پہلے اگر ووٹر شاعر حبیب جالب کی دو چار انقلابی نظمیں پڑھ لے تو اسے اپنا امیدوار چننے میں آسانی رہے گی۔ ووٹر کی رہنمائی کیلیے آج ہم حبیب جالب کی مختصر سوانح عمری ان کی شاعری کے شاہکار نمونوں کیساتھ چھاپ رہے ہیں۔

حبیب جالب 1928-1993اپنے وقت کا انقلابی شاعر تھا اور پاکستان کے جوں کے توں حالات نے اس کی شاعری کو اب بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔ جوانی میں ہی جالب معاشرے کی غلط رسموں کیخلاف اٹھ کھڑا ہوا اور اس کی ساری عمر انقلاب کی آس میں جیلیں کاٹتے اور پولیس سے مار کھاتے گزری۔ وہ معراج خالد اور ڈاکٹر مبشر حسن کی طرح کا ترقی پسند تھا جس نے نہ گھر کی پرواہ اور نہ شان و شوکت سے مرعوب ہوا۔ اس کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ معاشرہ وڈیروں، جاگیرداروں اور کارخانہ داروں کی اجارہ داری سے پاک ہوجائے تاکہ غریبوں کو بھی جینے کا حق ملے۔

کھیت وڈیروں سے لے لو

ملیں لٹیروں سے لے لو

ملک اندھیروں سے لے لو

رہے   نہ   کوئی   عالیجاہ

پاکستان کا مطلب کی   کیا

لا      الہ      الل        اللہ

ایوب خان کی آمریت کی مخالفت سے بینظیر کے جمہوری دور کی لوٹ کھسوٹ تک کا جالب کا سفر ایسا ہے جو مصائب سے بھرپور ہے اور اس راہ  پر جالب جیسا سر پھرا ہی چل سکتا ہے محلوں میں رہنے والا لیڈر نہیں۔

ایوب کے آئین کیخلاف اس نے ایک نظم لکھی جو بہت مشہور ہوئی۔

ایسے دستور کو صبح بے نور کو

میں نہیں جانتا،      میں نہیں مانتا

اور بینظیر کے دور کا قطعہ اس کے آخری کلام میں سے ایک تھا جس میں اس نے بینظیر کی لوٹ کھسوٹ کو اسی کے خاندان کے ناموں کو استعارے میں استعمال کرکے کمال کردیا۔

حال اب تک وہی ہیں غریبوں کے

دن  پھرے  ہیں  فقط  وزیروں کے

مقروض  ہے  دیس  کا  ہر  بلاول

پاؤں   ننگے  ہیں  بینظیروں  کے 

کہتے ہیں مغربی پاکستان کے گورنر نواب آف کالاباغ کی دعوت میں جب نیلو پر بیرون ممالک کے مہمانوں کے سامنے ناچنے سے انکار پر سختی کی گئی تو اس نے خود کشی کی کوشش کی۔ اس موقع پر جالب کی شاعری کو نیلو کے خاوند نے اپنی فلم زرقا میں فلمایا جو بہت مشہور ہوئی۔

تو  کہ  ناواقف آداب غلامی  ہے  ابھی

رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

ضیا دور میں بھی جالب کا قلم آمریت کے مظالم کے باوجود چلتا رہا اور اس نے بہت سارے فن پارے تخلیق کیے۔ جالب کی نظم کا یہ شعر بہت مشہور ہوا جس میں اس نے جنرل ضیا کے نام کو زو معنی بنایا۔

سر سر کو صبا، ظلمت کو ضیا

بندے    کو   خدا     کیا     لکھنا

جالب کے بعد انقلابی شاعری میں جو خلا پیدا ہوا وہ اب تک پر نہیں ہو سکا۔ نثر لکھنے والے تو آمریت کیخلاف جدوجہد کر ہی رہے ہیں مگر جالب کی طرح کے ایک اور انقلابی شاعر کی کمی موجود ہے۔

جالب کے فلم زرقا کے گانے اور اس کے مشاعروں میں پڑھے گئے کلام کو مندرجہ ذیل ویڈیوز میں دیکھیے اور اس کی آمریت کیخلاف جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیجئے۔

http://video.google.com/videoplay?docid=-1911020473976834374” allowScriptAccess=”sameDomain” quality=”best” bgcolor=”#ffffff” scale=”noScale” wmode=”window” salign=”TL” FlashVars=”playerMode=embedded”>
http://video.google.com/videoplay?docid=-8978175453272526185” allowScriptAccess=”sameDomain” quality=”best” bgcolor=”#ffffff” scale=”noScale” wmode=”window” salign=”TL” FlashVars=”playerMode=embedded”>