آج کل انتخابات کا دور ہے اور ہر کوئی اگلی حکومت حاصل کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ سیاست کا یہ کھیل بغیر کسی اصول و ضوابط کے کھیلا جارہا ہے اسلیے شاید اس کے نتائج سے ہم پاکستانیوں کو کوئی فائدہ نہ ہوسکے۔

بہرحال آئیں اس کڑے وقت میں صرف خیالی گھوڑے دوڑا کر اپنے آئیڈیل حکمران کا نقشہ کھینچیں اور پھر دیکھیں کہ ایسا حکمران موجودہ حالات میں ہم لوگوں کو نصیب ہو گا کہ نہیں۔

ہمارا آئیڈیل حکمران وہ ہوگا جس کی اپنی پارٹی میں جمہوریت ہوگی اور پارٹی کا شخصیت پرستی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوگا۔

ہمارا آئیڈیل حکمران نہ تو امیر ہو گا اور نہ ہی امپورٹڈ بلکہ وہ مڈل کلاس کا نمائندہ ہوگا اور اس کا رہن سہن بھی ایک مڈل کلاس کی طرح کا ہوگا۔

وہ انتہائی ایماندار اور قوم پرست ہوگا، ناں کہ کاروباری معاملات میں گھپلے کرکے ملکی دولت بیرونی ممالک کے بینکوں میں جمع کرانے والا۔

اس کے پاس عوام کی طاقت ہوگی نہ کہ بیرونی آقاؤں کی پشت پناہی۔ وہ بلا جھجک ملکی مفاد کو ہر معاملے میں ترجیح دے گا۔

اس کی سیکیورٹی کے اخراجات زیرو ہوں گے کیونکہ عوام اس سے نفرت کی بجائے پیار کریں گے۔  

ہمارا حکمران قومی صنعت کو ایسٹ انڈین کمپنی ٹائپ بیرونی سرمایہ کاروں سے تحفظ فراہم کرے گا اور نج کاری کے چکر میں غیرملکی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں میں پاکستانی معیشت کی باگ ڈور تھمانے سے اجتناب کرے گا۔

وہ اپنے پڑوسی ممالک کیساتھ تمام جھگڑے ختم کرکے فوجی بجٹ کو آدھا کردے گا اور اس طرح بچ جانے والا بجٹ تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خرچ کرکے ملک کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا۔

ہمارا حکمران اپنے خرچ پر حج اور عمرے کرے گا

وہ سپریم کورٹ کو آزاد کرکے غریبوں کو عدالتوں تک آسان رسائی مہیا کرے گا۔

وہ تھانوں کا کلچر بدل دے گا اور تھانوں میں انتہائی ایماندار اور مہذب آفیسرز تعینات کرے گا۔

وہ بیرونی قرضوں سے نجات دلانے کیلیے منصوبہ بندی کرے گا اور پھر اس پر عمل کرتے ہوئے ہرسال قوم کو بتائے گا کہ قرضے کتنے کم ہوئے۔

وہ قانون میں ایسی تبدیلیاں کرے گا جن کی مدد سے فوج کی حکومت میں مداخلت ہمیشہ کیلیے ختم ہوجائے گی اور فوج صرف اور صرف سرحدوں کی حفاظت کیا کرے گی۔ وہ فوج کے تمام صنعتی اداروں یعنی فاؤنڈیشنوں، ٹرسٹوں اور تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لے گا۔

وہ عدلیہ اور انتظامیہ کو رشوت سے پاک کرنے کیلیے اینٹي کرپشن کا فول پروف نظام متعارف کرائے گا۔

وہ میڈیا کو آزاد کرے گا اور حکومت میں شامل وزراء کی سکروٹنی کی حوصلہ افزائی کرے گا۔

وہ اپنے اخراجات کا ایک ایک پائی کا ٹی وی پر سالانہ حساب دے گا اورکسی بھی قسم کے آڈٹ کا سامنا کرنے سے نہیں ہچکچائے گا۔

وہ ایک باعمل انسان کی چلتی پھرتی مثال ہوگا جو وہی کہے گا جو خود کررہا ہوگا۔

کیا ایسا حکمران ہمیں نصیب ہوسکتا ہے؟ ہاں نصیب ہوسکتا ہے مگر تبھی جب ہم خود ایک باعمل انسان بنیں گے اور ایک ایماندار اور پاکستان سے مخلص ہونے کا ثبوت دیں گے۔ یا پھر کوئی معجزہ ہم پر ایسا حکمران مسلط کردے جو چودہ کروڑ کے جم غفیر کو اپنے عمل اور سچائی سے سیدھی راہ پر ڈال دے۔