ایوان صدر  وچ  سجا  دتی  اے

شیروانی دے اندر چھپا دتی اے

لوکاں  نوں   دھوکھا   دین   لئی

چاچے   وردی   لاہ   دتی  اے

جنرل مشرف نے آج فوج کی کمانڈ جنرل اشفاق کیانی کے سپرد کرتے ہوئے پاکستانجنرل مشرف کمانڈ جنرل اشفاق کیانی کے حوالے کررہے ہیں۔ سے زیادہ فوج کے ادارے کی تعریف کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج ہے تو پاکستان ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے یعنی عوام ہے تو پاکستان ہے اور پاکستان ہے تو فوج ہے۔ جنرل مشرف جو اب مسٹر مشرف بن چکے ہیں کی تقریر کا لب لباب یہی تھا کہ فوج پاکستان کا واحد ادارہ ہے جس میں یکجہتی اور ڈسپلن ہے۔ دوسرے اداروں میں  ڈسپلن کیوں نہیں ہے اس کی وجوہات انہوں نے نہیں بتائیں۔ جنرل ریٹائرڈ مشرف نے فوج پر تنقید کرنے والوں کی بھی خبر لی اور انہیں بھٹکے ہوئے لوگ کہا لیکن فوج پر تنقید کرنے کی وجہ کیا ہے اس پر موصوف خاموش رہے۔

 عالمی طاقتوں نے جب کمزور اور چھوٹے چھوٹے ملکوں کو آزاد کیا تو انہوں نے سوچا کوئی ایسی طاقت ہونی چاہیے جو ان ملکوں میں ہروقت موجود رہے اور جسے کسی جمہوری طریقے سے ختم نہ کیا جاسکے۔ اس مقصد کیلیے انہوں نے فوج کو منتخب کیا کیونکہ ان ملکوں کی آزادی سے قبل اگر کسی ادارے کی مکمل تربیت عالمی طاقتوں کی زیر نگرانی ہوئی تھی تو وہ فوج تھی۔ تب سے نہ تو فوجی تربیت کے مغربی انداز بدلے ہیں اور نہ فوج میں قومیت پسندی کا بیج بونے دیا گیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی افواج آج بھی عالمی طاقتوں کی زیرنگرانی تیارشدہ نصاب کے تحت تربیت حاصل کرتی ہیں۔  ان کی تربیت میں نہ مذہب کا عمل دخل ہوتا ہے اور نہ قومی وقار کا۔ یعہی وجہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے جنرل انتہاپسند روشن خیال ہوتے ہیں جو شراب کباب اور کماربازی کے نہ صرف دلدادہ ہوتے ہیں بلکہ فوج کے اندر بھی اسی روشن خیالی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ تبھی تو فوجی آفیسرز زیادہ تر شراب پیتےہیں وہ بھی ولائتی اور ان کے آرمی کلبوں میں جوا کھیلنے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔

 انہیں صرف یہی سکھایا جاتا ہے کہ کس طرح عالمی طاقتوں کے مفادات کا خیال رکھنا ہے۔ یہی  وجہ ہے کہ جنرل کے عہدے پر ترقی پانے والوں کی آخری تربیت عالمی طاقتیں اپنے اداروں میں کرتی ہیں اور ان کو اس طرح برین واش کرتی ہیں کہ وہ عام آدمی کو بلڈی سویلین کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کے سامنے ملکی مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد مقدم ہوتا ہے۔ اسی لیے ترقی پذیر ممالک کے ریٹائرڈ جنرل دنیا کے امیر ترین جنرل ہوتے ہیں۔

جنرل اشفاق کیانی ایک صوبیدار کے بیٹے ہیں جنہوں نے جہلم ملٹری کالج سے ایف ایس سی کرنے کے بعد فوج میں کمیشن حاصل کیا۔  وہ کوئٹہ سٹاف کالج کیساتھ ساتھ امریکہ کے جنرل سٹاف کالج فورٹ لیونورتھ کے تربیت یافتہ ہیں۔ وہ جنرل مشرف کی طرح مغربی طرز زندگی کے دلدادہ ہیں اور چین سموکرہیں۔ ان کو عالمی طاقتوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے اور شاید اسی لیے وہ اگلی حکومت کے اندر ایک کلیدی کردار ہوں گے۔

جنرل مشرف نے وردی اتار کر کمانڈ جنرل اشفاق کیانی کے سپرد کر تو دی مگر ایمرجنسی پلس نہیں اٹھائی جسے اکثر لوگ مارشل لاء کا دوسرا نام کہتے ہیں۔ ابھی تک ملک میں میڈیا پر پابندیاں برقرار ہیں، سپریم کورٹ کےججز گھروں میں بند ہیں اور سول سوسائٹی اپنی آزادی کیلیے جگہ جگہ مظاہرے کررہی ہے۔ ابھی آج کے مظاہرے میں جب ہم نے صحافیوں کو سول سوسائٹی کیساتھ ملکر “آزادی” مانگتے سنا تو ہمیں 1947 کا زمانہ یاد آگیا جب مسلمان انگریزوں سے آزادی مانگ رہے تھے۔ لیکن انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد عام پبلک اپنے آپ کو اب بھی آزاد نہیں سمجھتی کیونکہ اس کے بنیادی حقوق معطل ہیں،  اس کے ملک کا نظام بغیر آئین کے چلایا جارہا ہے اور وہ اب بھی آزادی مانگ رہی ہے۔

اس ساری تبدیلی سے تویہی لگتا ہے کہ صرف وردی والا چہرہ بدلا ہے وردی نہیں اتری۔ یہ اب جنرل اشفاق کیانی پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح عام پاکستانی کو یقین دلاتے ہیں کہ جنرل مشرف کے مسٹر مشرف بننے کے بعد فوج سیاست اور حکومت سے عليحدہ ہوچکی ہے اور اب ملک میں فوجی نہیں سویلین حکومت ہے۔