2001 میں سیالکوٹ کے کاروباری حلقوں نے اپنے مال کی بروقت برآمد کیلیے حکومت سے درخواست کرنے کی Sialkot Airport Towerبجائے خود ایئر پورٹ بنانے کا ذمہ اٹھایا جو آج مکمل ہوگیا۔ جنگ کی خبر کے مطابق اس کارنامے کی تکمیل میں پانچ سو افراد نے حصہ لیا۔ ان لوگوں نے سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ لمیٹڈ یعنی سیال کمپنی بنائی اور گورنمنٹ کی اجازت سے ائیرپورٹ بنانا شروع کردیا۔۔ اس کمپنی کا مخفف سیال شہر سیالکوٹ کی غمازی بھی کیا کرے گا۔

 اس ائیرپورٹ پر آج پہلی مسافربردار پرواز اتری جو کراچی سے روانہ ہوئی تھی۔ کچھ عرصے بعد یہاں پر بین الاقوامی پروازیں بھی اترنا شروع ہوجائیں گی۔

ہم شروع سے کہتے آئے ہیں کہ آج کے دور میں زیادہ تر کام ایک آدمی کے بس کی بات نہیں رہے۔ کامیابی کیلیے قائداعظم کے تین اصولوں میں سے ایک یعنی اتحاد کا ہونا ضروری ہے۔ وہ کام جو پاکستانی حکومت بھی نہیں کرسکی جب پانچ سو آدمی اکٹھے سر جوڑ کر بیٹھے تو انہوں نے کردکھایا۔ شاباش سیالکوٹ کے شیرو خدا، تمہارے اس کام میں برکت ڈالے اور تمہیں مزید پاکستان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یاد رہے کہ حکومت پاکستان بھی پیچھے نہیں رہی اور اس نے بھی اس میں اپنا مقدور بھر حصہ ڈالا ہے۔

سیالکوٹ ایئرپورٹ کا رن وے پاکستان کا سب سے بڑا رن وے ہے جس کی لمبائی تین عشاریہ چھ کلومیٹر ہے اور اس پر دنیا کا سب سے بڑا طیارہ ائیربس تین سو اسی بھی لینڈ کرسکتا ہے۔ اس ایئرپورٹ پر دو ارب ساٹھ کروڑ روپے لاگت آئی ہے۔

کیا ہمارا میڈا اس کارنامے کو اپنی خبروں میں مناسب جگہ دے پائے گا۔  تاکہ ہم پاکستانی بھی مایوسیوں سے نکل کر فخر سے کہ سکیں کہ “ہم بھی کسی سے کم نہیں”