صدر مشرف نے جب سے وردی اتاری ہے وہ تب سے سول صدر ہونے کے باوجود یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں جیسے اب بھی حاضر جنرل ہیں۔ اب تک وہ منگلہ، راولپنڈی اور کوئٹہ کی چھاونیوں میں خطاب کرچکے ہیں جنہیں الوداعی تقریبات کا نام دیا گیا ہے۔

اب انہوں نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ایک کمانڈ کونسل بھی بنا لی ہے جس کے وہ خود سربراہ ہیں۔ اس کا اجلاس کل ہوا جس میں وزیراعظم، وزیرخارجہ، وزیرداخلہ، وزیرخزانہ اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کی۔ ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ سیکیورٹی کونسل کے ہوتے ہوئے صدر کو کمانڈ کونسل بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ ہوسکتا ہے کہ اس طرح صدر نے کسی بھی سرکاری افسر کے خلاف کاروائی کا اختیار حاصل کرلیا ہو تاکہ صدارتی نظام مکمل طور پر کارگر ثابت ہوسکے۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ صدر نیشنل سیکیورٹی کونسل میں ترمیم کردیتے۔ مگر شاید چیف آف سٹاف نے مخالفت کی ہو گی کیونکہ نیشنل سیکیورٹی کونسل میں سب سے پاور فل چیف آف سٹاف ہی ہیں۔

ہم اس سے پہلی پوسٹ میں بھی عرض کرچکے ہیں کہ انتجابات کے عرصے میں اگر کوئی آرڈیننس جاری نہ کیا جائے اور اگلی پارلیمنٹ کا انتظار کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ ہمیں اب ملکی انتظامات اگلی حکومت پر چھوڑ دینے چاہئیں تاکہ وہ قانون سازی کرسکے۔ مگر لگتا ہے صدر مشرف اگلی حکومت قائم ہونے سے پہلے ہی اپنے اختیارات بڑھانے کے چکر میں ہیں تاکہ اگلے پانچ سال وہ ویسے ہی حکومت کرتے رہیں جیسے آٹھ سال پہلے کی ہے۔

جنرل صاحب کے چھاونیوں کے دورے کرنے کا ایک ہی مطلب ہوسکتا ہے۔ وہ سیاستدانوں کو اب بھی باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ اب بھی فوج کی آواز ہیں اور انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد کمزور نہ سمجھا جائے۔ اس حکمت عملی کی وجہ  وہ انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی حکومت کو کنڑول کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہ سوفیصد غیروں کے مشورے ہیں تاکہ پاکستان میں جمہوری نظام ہونے کے باوجود پارلیمنٹ کو بے اختیار رکھ کر تمام اختیارات ایک ہی شخص کے ہاتھ میں رہیں۔ اس طرح غیرملکی آقاؤں کو من مانی کرنے میں آسانی رہے گی۔ ان کیلیے  پارلیمنٹ سے قانون سازی کیلیے سیاستدانوں کی منتیں کرنے کی بجائے ایک ہی شخص کیساتھ معاملہ کرنا آسان ہوگا۔

کمانڈ کونسل نے اپنے پہلے اجلاس ميں تمام امور پر غور کیا مگر آٹے کے بحران کو نظر انداز کردیا۔ صدر ہوں یا نگران حکومت آٹے کے بحران کی انہیں ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے۔ کہاں چینی کی مہنگائی پر ایوب کیخلاف چلنے والی تحریک اس کی حکومت کو لے ڈوبی اور کہاں آٹے، چینی، تیل اور بجلی کے بحران جنرل مشرف کا بال بھی بیکا نہ کرسکے۔ ہم اب تک یہ معمہ حل نہیں کرسکے کہ عوام کیسے اتنی ساری تکالیف یکے بعد دیگرے برداشت کرتے جارہے ہیں۔ شاید جنرل مشرف اور ان کی فوج سے اب بھی لوگ اتنے ہی ڈرتے ہیں جتنے باوردی جنرل مشرف سے ڈرتے تھے۔