یورپ میں مقیم ایک پاکستانی خاندان کی بیٹی علامہ اقبال میڈیکل کالج میں پڑھتی ہے۔ چند ماہ قبل جب ایک پاکستانی جوڑا پاکستان جانے لگا تو اس فیملی نے انہیں بیٹی کیلے ایک عدد کریڈٹ کارڈ دیا تاکہ وہ پاکستان میں اپنے اخراجات کیلیے اسے استعمال کرسکے اور اس کے والدین بل یورپ میں ادا کرسکیں۔

پاکستان جانے والے جوڑے نے کریڈٹ دینے کی ڈیوٹی اپنے بھتیجے کے ذمے لگائی۔ پاکستانی جوڑے نے اسی بھتیجے کیساتھ اپنی بیٹی کی منگنی کررکھی تھی اور وہ جلد اسے یورپ بلانے والے تھے۔

 بھتیجے نے پہلے تو کریڈٹ کارڈ سے دو ہزار ڈالر کی شاپنگ کی اور بعد میں لڑکی کو اس کے موبائل پر تنگ کرنا شروع کردیا۔ لڑکی نے اپنے والدین کو شکایت لگائی اور والدین نے جب کریڈٹ کارڈ پر لمبے چوڑے چارجز کا پوچھا تو لڑکی نے کہا کہ اس نے تو اب تک کريڈٹ کارڈ استعمال ہی نہیں کیا۔

پاکستانی جوڑا جب واپس یورپ پہنچا تو لڑکی کے والدین نے ان کو شکایت کے انداز میں اپنی بیٹی کی روداد سنائی۔ پہلے تو پاکستانی جوڑے نے یہ سب کچھ ماننے سے ہی انکار کردیا اور بعد میں کہنے لگے کہ انہیں اپنے بھتیجے پر پورا بھروسہ ہے اور وہ یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں کہ اس نے اس طرح کی کمینگی کی ہو گی۔

لڑکی کے والدین نے کریڈٹ کارڈ کمپنی کو فراڈ رپورٹ لکھوا دی اور جب کریڈٹ کارڈ کمپنی نے تحقیق کی تو جس سٹور سے خریداری کی گئی تھی وہ لوگ پاکستانی جوڑے کے بھتیجے کے گھر پہنچ گئے۔ بھتیجے کو نہ صرف خریدا ہوا زیور واپس کرنا پڑا بلکہ پلے سے رقم دے کر جان چھڑوانی پڑی۔

جب اس حقیقت کا پاکستانی جوڑے کو پتہ چلا تو تب انہوں نے لڑکی کے والدین سے معافی مانگی۔ ان کی لڑکی نے اپنے کزن کیساتھ شادی کرنے سے انکار کردیا اور پاکستانی جوڑے کو مجبوراً بھتیجے کے کاغذات جو اسے یورپ بلانے کیلیے جمع کرائے تھےکینسل کرانے پڑے۔

اس طرح ایک آدمی کی کمینگی نے اسے اتنا نقصان پہنچایا کہ وہ کئی سال تک اس کی تلافی نہیں کرپائے گا۔