چند ہفتے قبل ہمیں اپنے عزیز جو پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں نے بتایا کہ یونیورسٹیوں میں حاضر یا ریٹائرڈ جنرلوں کے وائس چانسلر بنائے جانے کیخلاف رکاوٹ کھڑی کردی گئی ہے۔  اب وائس چانسلر صرف اور صرف پی ایچ ڈی ہی ہوا کریں گے۔ اس شرط کو پورا کرنے کیلیے حاضر اور ریٹائرڈ جنرلوں کو پہلے پی ایچ ڈی کرنی پڑے گی۔ اس وقت ہماری فوج میں دو چار ہی پی ایچ ڈی آفیسرز ہیں۔General Ashfaq Kiani

آج کی خبر یہ ہے کہ فوج نے اپنے اڑھائی ہزار سے زیادہ سول اداروں میں  تعینات حاضر سروس فوجی آفیسروں کو واپس بلانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ آفیسرز جنرل سے لیکر میجر تک جنرل ریٹائرڈ مشرف کی مہربانی سے پرائیویٹ محکموں میں ڈیپوٹیشن پر ہیں۔ جنرل ریٹائرڈ مشرف نے انہیں پرائیویٹ اداروں میں کرپشن اور بدانتظامی ختم کرنے کیلیے تعینات کیا تھا۔ یہ حدف تو جنرل ریٹائرڈ مشرف حاصل نہ کرسکے کیونکہ ان کی نیت میں خلل تھا،  ہاں عوام میں فوج کیخلاف نفرف پیدا کرنے کا سبب ضرور بنے۔ یہ بھی سنا ہے موجودہ فوجی قیادت فوج کو پرائیویٹ اداروں سے ہمیشہ کیلیے باہر رکھنے کیلیے ایک نیا ضابطہء اخلاق بنا رہی ہے۔

دراصل جنرل اشفاق کیانی قومی وارفتگی میں یہ اقدامات نہیں اٹھا رہے بلکہ یہ ان کی مجبوری بن چکی ہے کیونکہ پبلک میں فوج کیخلاف نفرت کم کرنے کا اس کے علاوہ کوئی طریقہ جنرل ریٹائرڈ مشرف نے چھوڑا ہی نہیں۔

ہمارے خیال میں اگر جنرل اشفاق کیانی کو عوام میں فوج کا اعتماد بحال کرنا ہے تو پھر یہ اقدامات بہت کم ہیں۔ جنرل اشفاق کیانی کو اپنے دل کو مزید بڑا کرنا پڑے گا اور اس سے دو قدم آگے بڑھ کر اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

 ہمیں معلوم ہے کہ موجودہ حالات میں جنرل ریٹائرڈ صدر مشرف کو ان کے عہدے سے ہٹانا بہت مشکل ہے حالانکہ اب عالمی میڈیا بھی ان کی عوام میں غیرمقبولیت کی وجہ سے انہیں اقتدار چھوڑنے کے مشورے دینے لگا ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں جنرل اشفاق کیانی کو یہ کڑوی گولی نگلنی ہی پڑے گی اور یہ انتہائی قدم ہی فوج کی عزت عوام میں بحال کرانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ جس طرح کے ملکی حالات جنرل ریٹائرڈ صدر مشرف نے پیدا کردیے ہیں عوام اس سے کم کے سودے پر راضی نہیں ہوں گے۔ آٹا، چینی، بجلی، گیس، گھی، سپریم کورٹ اور وکلاء کے بحران جنرل ریٹائرڈ صدر مشرف کے ہی تحفے ہیں۔ اب تو لوگ یہ تک سوچنے لگے ہیں کہ ان کی اگلی نسل کا کیا بنے گا۔

جنرل اشفاق کیانی کو یہ بھی چاہیے کہ وہ ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی سولین محکموں سے واپس بلا لیں اور صرف انہیں نوکری کی اجازت دیں جو اہل ہوں۔ یہاں تک کہ ر صوبوں کے ریٹائرڈ جنرل گورنر تک بدل دینے چاہییں۔

جنرل اشفاق کیانی کو شمالی وزیرستان اور سوات میں فوجی آپریشن بھی بند کردینے چاہئیں تاکہ صوبہ سرحد اور بلوچستان کے عوام میں فوج کیخلاف نفرت کم کی جاسکے اور وہ ان کے دل جیت سکیں۔

جنرل اشفاق کیانی کو وقتی طور پر ایدھی فاؤنڈیشن کی طرز پر ایک ایسا فوجی ادارہ قائم کرنا چاہیے جو عام پبلک کی مدد کیلیے ہروقت طیار ہو اور غریب غربا کی بڑا بھائی بن کر مدد کو پہنچے۔

 جنرل اشفاق کیانی کو اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے فوج کو ازسرنو منظم کرنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے تین سال کا عرصہ اس کاز کیلیے کم ہو مگر جنرل کیانی اگر اس کام کی بسم اللہ ہی کردیں تو یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔

کالم نگار جاوید چوہدری کی رائے کیمطابق فوج کو سیاست اور بزنس سے دور رکھنا پڑے گا۔ سیاست سے دوری کا حکم تو جاری کردیا گیا ہے مگر کاروباری لوگوں سے دوری کا حکم ابھی جاری نہیں ہوا۔ اس وقت شاید ہی کوئی سیاستدان ہو جس کی رشتے داری فوج کے کسی آفیسر کیساتھ نہ ہو۔ اس کا حل یہی ہے کہ ایسے آفیسروں کو یا فوری طور پر ریٹائر کردیا جائے یا پھر ان کے رشتہ دار سیاست چھوڑ دیں۔ یہی طریقہ کاروباری رشتے داریاں ختم کرنے کیلیے اپنانا چاہیے۔

امید ہے جنرل اشفاق کیانی انہی خطوط پر سوچ رہے ہوں گے اور ہم جلد ہی ان کی اس سوچ کو عملی جامہ پہنتے ہوئے دیکھیں گے۔