ریٹائرڈ جنرل صدر مشرف کی قائم کردہ جماعت مسلم لیگ ق کو عبرت ناک شکست کے بعد جنرل صاحب کو اپنی شکست تسلیم کرلینی چاہیے اور اگر ان میں ذرہ برابر فوجی انا باقی ہے تو صدارت سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ لیکن کیا جائے ہم ذاتی مفاد اور خودغرضی میں اس حد تک آگے نکل چکے ہیں جہاں پر غیرت اور حمیت کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ 

ریٹائرڈ جنرل صدر مشرف نے انتخابات سے قبل کہا تھا کہ اگر ان کے حمایتی ہار گئے تو وہ استعفٰی دے دیں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ یہ ثابت کردیں کہ اب وہ وعدہ خلافیاں ترک کرچکے ہیں۔ اگر مرد مجاہد ہیں تو اپنا قول نبھائیں مگر ہماری تاریخ تو یہ بتاتی ہے ہم تب تک ہی مرد مجاہد ہوتے ہیں جب تک کرسی پر بیٹھے ہوتے ہیں۔  اس وقت  ہمارے تمام قول و اقرار صرف زبانی کلامی ہوتے ہیں۔ تبھی تو وردی اتارنے کے وعدہ سے منحرف ہوتے ہوئے مشرف صاحب نے کہا تھا کہ انہوں نے لکھ کر نہیں دیا تھا کہ وہ ایک عہدہ چھوڑ دیں گے۔

ایک وقت تھا فوجی کو یہ تربیت دی جاتی تھی کہ اس نے دشمن کے سامنے زندہ ہتھیار نہیں ڈالنے۔ بلکہ فوجیوں کے ناخنوں کے نیچے سایانائٹ کا ذہر چھپا دیا جاتا تھا تاکہ جب فوجی دشمن کے قبضے میں چلا جائے اور دشمن کے تشدد کے آگے ہارنے لگے تو ذہر کھالے تاکہ دشمن اس سے قومی راز نہ اگلوا سکے۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگ فوج کی اعلٰی ترین پوزیشن پر رہنے کے باوجود اپنی اس تربیت کا مطلب غلط سمجھ رہےہوں اور ہار ماننے سے گریز کررہےہوں۔ لیکن وہ یہ بات یاد رکھیں سادگی سے ہار مان کر گھر چلے جانا ذلیل ہو کر کرسی سے اترنے سے سو درجے بہتر ہوتا ہے۔

لگتا یہی ہے جنرل مشرف صاحب تب تک کرسی سے چمٹے رہیں گے جب انہیں گھسیٹ کر نیچے نہیں اتارا جائے گا۔ اگر یہی صدارتی کرسی ان کے آقاؤں کے ملک میں کسی کے پاس ہوتی تو وہ کشادہ دلی سے اپنی شکست تسلیم کرتا اور اگلے دن ہی قصر صدارت چھوڑ کر گھر منتقل ہوجاتا۔ مگر کیا کریں ہم دیسی گوروں کا جو اپنے آقاؤں کی روشن خیالی کو تو اپناتے ہیں مگر ان کے اچھے اصولوں کو نہیں اپناتے۔ ان کے آقا بھی ایسے مواقع پر ان کو ذلیل کرنے کیلیے ڈٹے رہنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے آقاؤں کے ہاتھوں ذلیل ہونے کی بجائے اپنے ہی عوام کے ہاتھوں رسوا ہوں اور دوسروں کیلیے عبرت کا نشان بن جائیں۔

انتخابات کی شفافیت پر جنرل مشرف مبارک کے مستحق ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کے آقاؤں اور نئے چیف نے انہیں دھاندلی سے باز رکھا ہوگا۔ جنرل صاحب کی اب تک تو ہم کمانڈو صلاحیتیں دیکھتے آئے ہیں اور اب ان کی سیاسی چالیں دیکھنے کا موقع ملے گا۔  آنے والا وقت بتائے گا کہ جنرل مشرف صاحب اپنے آٹھ سالہ تجربے سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں اور سیاست کے بڑے بڑے کھلاڑیوں سے کس طرح سیاست کا کھیل کھیلتے ہیں۔ لیکن ان کی بہتری اسی میں ہے کہ شوکت عزیز کی طرح اپنی عزت بچائیں اور خاموشی سے گھر چلے جائیں۔