ایک دن پہلے کی جنگ کی خبر کی شہ سرخی “وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری کو چئیرمین نیپرا بنانے کیلیے صدارتی آرڈیننس میں ترمیم”  اور آج کی جنگ کی خبر کی شہ سرخی “نگران وزیراعظم سومرو کا سینٹ کے سابق چئیرمینوں کیلیے قیمتی مراعات کا تحفہ” کو پڑھ کرہمیں  پنجابی کی ضرب المثل” انہاں ونڈے ریوڑیاں مُڑ مُڑ اپنیاں نوں” یاد آگئی ہے۔

خود غرضی کی اس سے بڑی انتہا کوئی نہیں ہوسکتی کہ صدر صرف ایک آدمی کیلیے آئین میں ترمیم کردے اور ایک عارضی کرسی پر بیٹھا شخص اپنی موجودہ سیٹ کیلیے مراعات کا اعلان کردے ۔

 اگر آنے والی قومی اسمبلی ذرا برابر بھی پاکستان کیساتھ مخلص ہوئی اور اسے اپنی جان کی پرواہ نہ ہوئی تو وہ سب سے پہلے 1973 کے آئین سے تمام آرڈیننسز منسوخ کردے گی اور اسے اپنی اصل حالت میں بحال کردے گی۔ اگر قومی اسمبلی یہ کام نہ کرسکی تو پھر ہم سمجھیں گے کہ موجودہ سیٹ اپ بھی مشرف دور کا ایک تسلسل ہے اور اگلے پانچ سال پاکستان ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف ہی بڑھے گا۔

کیا خیال ہے اگلی قومی اسمبلی میں اتنی طاقت ہوگی کہ وہ اپنے پہلے سیشن میں ہی ججوں کو بحال کرنے کا حکتم دوتہائی اکثریت سے جاری کردے؟ آئین میں ایسی ترمیم کرے جس سے ملکی مفادات کے فیصلے صرف اور صرف اسمبلیوں میں ہی ہو سکیں؟  فوج کی حکومت میں مداخلت پر ھمیشہ کیلیے پابندی لگا دے اور حکومت پر قبضہ کرنے والے فوجی ڈکٹیٹر کیلئے سزائے موت کی سزا مقرر کردے؟

اگر اگلی حکومت یہ ٹیسٹ پاس کرگئی تو ہم سمجھیں گے کہ وہ انقلابی حکومت ہے اور پاکستان کیلیے کچھ کرنا چاہتی ہے۔ اگر نئی حکومت نے بھی خاموشی اختیار کرلی اور آصف زرداری کے موجودہ مبہم بیانات کی طرح مبہم اقدامات کرتی رہی تو پھر ہم سمجھیں گے کہ ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور ریٹائرڈ جنرل صدر مشرف کی حکمت عملی کامیاب ہوگئی ہے اور بقول ان کے آخری مکا انہی کا ہوگا اور ہے۔

سابقہ روایات سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ نئی حکومت انقلابی اقدامات نہیں اٹھا پائے گی اور ہرکوئی سابقہ کنگز پارٹی کی طرح صرف اور صرف اپنے پیٹ پر ہی ہاتھ پھیرتا رہے گا۔ یعنی نگران وزیراعظم سومرو سینٹ کے چئیرمین سومرو کیلیے مراعات دینے کے اعلانات کا تسلسل جاری رہے گا۔ ان حالات میں دیکھنا یہ ہوگا کہ نواز شریف اور آصف زرداری ملک کو اس دفعہ ملکر کس طرح لوٹتے ہیں یا پھر چند دنوں بعد ہی کھیر جوتیوں میں بٹنا شروع ہوجاتی ہے۔