پہلے غیرملکی اثرورسوخ ڈھکی چھپی بات ہوتی تھی اور حکومتیں غیروں کی ڈکٹیٹشن کو بے غیرتی شمار کیا کرتی تھیں۔ جب سے انتخابات ہوئے ہیں غیرملکی اثرورسوخ کوئی راز نہیں رہا بلکہ انتخابات میں حصہ لینے والے اور پھر نئی حکومت بناتے والے سیاستدان غیرملکی اثرورسوخ کو ایک اعزاز سمجھنے لگے ہیں۔ وہ سرعام بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ انہیں امریکی حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ جنرل مشرف نے بڑی خوبصورتی سے بھارت اور امریکی سپرمیسی کا خوف پاکستانیوں کے دلوں میں اس طرح بٹھا دیا ہے کہ لوگ اب کشمیرکے مسئلے کو تیاگ کر بھارت سے تعلقات بڑھانے کی بات کرنے لگے ہیں اور امریکہ کو اپنی سرزمین پر ہوائی اڈے بھی دینے کی خواہش کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ اور پی پی پی کے لیڈر سردار آصف علی کا انٹرویو ابھی کل ہی نشر ہوا ہے جس میں انہوں نے دونوں باتوں پر اتفاق کیا ہے۔

امریکی سفیر اس دفعہ حکومت سازی میں کھلم کھلا شامل ہوئی ہیں اور انہوں نے کوئی ایسا سیاستدان نہیں چھوڑا جس سے ملاقات نہ کی ہو۔  برطانوی سفیر بھی اندرون سندھ کے دورے پر ہیں اور وہ اپنی لگائی ہوئی رقم کے اثرات کا جائزہ لینے کے بہانے عام پبلک سے میل جول بڑھا رہے ہیں۔

اسی طرح کل ہی یو ایس ایڈ نے ہمارے ارکان پارلیمنٹ کی تربیت کا کورس ترتیب دیا اور اس تربیت کے بعد یو ایس ایڈ کے سربراہ نے تقریر بھی کی۔ اس کورس میں ارکان پارلیمنٹ کو کمیٹیوں کے کام اور پارلیمنٹ کے اصول و ضوابط سے روشناس کرایا گیا۔ ہم تب سے سوچ رہے ہیں کہ کیا ہم لوگ اتنے ہی شکست خوردہ ہوچکے ہیں کہ اپنے ارکان پارلیمنٹ کی تربیت کیلیے غیرملکیوں کی خدمات حاصل کرنے لگے ہیں۔ اس سے قبل ہمارے فوجی جنرل تربیت کیلیے امریکہ جاتے رہے ہیں۔ جس طرح یہ تربیت فوجی جنرلوں کو غداری پر مائل کرنے کیلیے استعمال ہوتی رہی ہے اسی طرح اب اپنے ہی ملک میں ارکان اسمبلی کی تربیت اسی طرح کے کئی شکوک کو جنم دیتی ہے۔

اگر یہی طور طریقے رہے تو پھر یہی سمجھا جائے کہ غریبوں کا کوئی نمائندہ پارلیمنٹ میں نہیں ہوگا اور تین چار سو کی شکل میں غیرملکی ایجنٹ پارلیمنٹ ميں بیٹھے ملک کا ستیاناس کررہے ہوں گے۔ جس طرح جنرل مشرف نے اپنے ملکی مفادات کو غیرملکی مفادات پر قربان کیا اسی طرح لگتا ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ جنرل مشرف خود کہ چکے ہیں کہ نئی حکومت ان کی پالیسیوں کو جاری رکھے گی یعنی شمالی علاقوں میں لڑائی جاری رہنے کیساتھ ساتھ توانائی اور آٹے کا بحران جاری رہے گا۔

کہتے ہیں پتر کپتر پوتڑوں سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ یعنی ہماری نئی حکومت کے شروع کے چند مہینے اسے پہچاننے کیلیے کافی ہوں گے۔ اگر تو جنرل مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہا تو پھر کسی تبدیلی کی توقع فضول ہو گی اور اگر اس حکومت نے غیروں کے مفادات پر ملکی مفادات  کو ترجیح دینا شروع کردیا اور عام آدمی کے مسائل کی طرف توجہ دی تو پھر ہم اسے تبدیلی قرار دیں گے۔