حضرت عبدالقادر جیلانی بہت بڑے بزرگ ، مبلغ اور ولی اللہ تھے۔ ان کے ہاتھوں پر ہزاروں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ حضرت عبدالقادرجیلانی کا سلسلہ نسب حضرت حسن اور حضرت حسین سے ہوتا ہوا نبی پاک صلعم سے جا ملتا ہے۔ اس طرح ہمارے موجودہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا تعلق بھی نبی پاک کے سلسلہ نسب سے ہے۔ 

 حضرت عبدالقادرجیلانی ایک دفعہ ایک بہت بڑے مجمع سے مخاطب تھے اور درس دے رہے تھے۔ اتنے میں دو عربی مسافر جو کئی دن سے بھوکے تھے سامعین میں شامل ہوگئے۔ حضرت عبدالقادرجیلانی نے درس روک کر دونوں مسافروں کے بارے میں بتایا کہ وہ بہت دورسے آئے ہیں اور ان کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دونوں مسافروں نے آخری کھانا کب کھایا تھا۔

حضرت عبدالقادرجیلانی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم کو اس دور میں بھوکوں کو پہچاننے کیلیے کسی کشف کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ ان کے ملک میں بہت سارے بھوکے غریب انہیں ہرروز گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر جاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے جدامجد کی لاج رکھتے ہوئے ان غربا کا خیال رکھتے ہیں کہ نہیں۔

ایک دفعہ ایک تاجر کو اس کے بزرگ نے خبردار کیا کہ وہ سفر نہ کرے کیونکہ اس کے لٹ جانے کا امکان ہے۔ مگر بعد میں حضرت عبدالقادرجیلانی نے اس کی حفاظت کی ذمہ دار لی اور اسے سفر کرنے کو کہا۔ تاجر نے سفر کیا اور وہ بخیریت منزل پر پہنچ گیا۔

کیا اب یوسف رضا گیلانی صاحب پاکستان میں محفوظ سفر کی ضمانت دے سکیں گےَ کیا وہ روزانہ بسوں اور کوچوں کے مسافروں کی رہزنوں کے ہاتھوں لٹنے والوں کی داد رسی کرسکیں گے؟ اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو پھر ان کی گیلانیت مشکوک ہوجائے گی۔

ایک دفعہ دو بزرگ آئے انہوں نے حضرت عبدالقادرجیلانی کی امامت میں نماز ادا کی۔ انہیں حضرت عبدالقادرجیلانی کی قرات پسند نہ آئی اوران کے خلاف باتیں کیں۔ رات کو وہ جھیل پر نہانے گئے تو ایک شیر نے انہیں جا لیا۔ حضرت عبدالقادرجیلانی وہاں پہنچ گئے اور شیر ان کے قدموں میں گرگیا۔ یہ دیکھ کر دونوں بزرگوں نے حضرت عبدالقادرجیلانی سے معافی مانگی۔ حضرت عبدالقادرجیلانی نے انہیں فرمایا کہ وہ اپنے دل کی درستگی کی کوشش کررہے ہیں جبکہ بزرگ اپنی زبان کی درستگی کررہے تھے۔

کیا ہمارے وزیراعظم اپنے جدامجد کے قدموں پر چلتے ہوئے موجودہ مہنگائی کے شیر کو لگام ڈال سکیں گے جو عام آدمی کی چیرپھاڑ کر رہا ہے؟

خلیفہ وقت نے ایک دفعہ حضرت عبدالقادرجیلانی کو اشرفیوں کی تھیلیاں پیش کیں۔ حضرت نے پہلے تو اشرفیاں لینے سے انکار کردیا۔ انہوں نے خلیفہ کے سامنے ہی دو تھیلیوں کو اپنے ہاتھوں میں زور سے دبایا تو ان سے خون نکلنا شروع ہوگیا۔ انہوں نے خلیفہ سے کہا کہ یہ دولت غریبوں کا استحصال کرکے اکٹھی کی گئی ہے اسلیے وہ اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

کیا وزیراعظم یوسف رضا گیلانی صاحب غریبوں کے ٹیکس اور زکوٰۃ کا پیسہ اپنے اور اپنے وزرا کی عیاشیوں پر خرچ کرنے کی بجائے عوامی بہبود کے کاموں خرچ کر پائیں گے؟ کیا وہ حکومتی عیاشیوں کو کنٹرول کرکے عام آدمی کی فلاح کیلیے کچھ کریں گے؟ کیا وہ دفاع پر خرچ ہونے والے غریبوں کے پیسے کا حساب قومی اسمبلی میں پیش کراسکیں گے؟

ایک دفعہ بغداد کے ایک دریا میں طغیانی آنے لگی اور بغداد کے رہائشی حضرت عبدالقادرجیلانی سے مدد مانگ لی۔ حضرت عبدالقادرجیلانی دریا کے پاس گئے اور اپنی چھڑی دریا کے کنارے گاڑ دی اور دریا سے کہا کہ وہ اپنی اوقات میں رہے۔ اسی وقت دریا کا پانی آہستہ آہستہ کناروں سے پیچھے ہٹنے لگا اور سیلاب کا خطرہ ٹل گیا۔

کیا وزیر اعظم اپنی شاہ خرچ کابینہ کی شاہ خرچیوں کو اسی طرح روک کر انہیں اپنی اوقات میں رہنے کا حکم دے سکیں گے؟

   ان تمام سوالوں کے جوابات وزیراعظم کی حکمرانی کے پہلے تیس دنوں میں مل جائیں گے۔ اگر تو وہ سچے گیلانی ہوئے تو ان کے شروع کے چند اقدامات ہی ان کی سچائی پر مہر لگا دیں گے اور اگر وہ نام کے گیلانی ہوئے تو پھر مشرف دور کا تسلسل قائم رہے گا اور لٹیرے شوگر ملوں، فلورملوں، اور چینی کے بحران پیدا کرکے غریبوں کی جمع پونجی پر ہاتھ صاف کرتے رہیں گے۔ نہ بجلی کا بحران حل ہوگا اور نہ گیس کا۔ بس دہشت گردی کے نام پر غیر مسلمانوں کو شہید کرتے رہیں گے اور گیلانی صاحب کی حکومت ان کے گناہ اپنے ذمے لیتی رہے گی۔