کل جب یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم بننے پر قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں معزول ججوں کی رہائی کا اعلان کیا تو مہمانوں کی گیلری میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے کھڑے ہو کر سب سے زیادہ دیر تک تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔ حتیٰ کہ مہمانوں کی تالیوں کی بڑھتی ہوئی طوالت کو دیکھ کر اسمبلی ممبران بھی اپنی سیٹوں سے کھڑے ہوگئے اور کافی دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔ اسے کہتے ہیں عوامی میڈیٹ اور ڈکٹیٹر کے اقدامات پر عوامی غیض و غضب کا مظاہرہ۔

موجودہ قومی اسمبلی میں تحلیل ہوتی ہوئی حزب اختلاف کی باقیات کا ردعمل ہم نہیں دیکھ سکے اور نہ ہی ایم کیو ایم کے ارکان کے ردعمل کو دکھایا گیا۔ مسلم لیگ ق اور متحدہ کا اب تک ججوں کی بحالی کے بارے میں سخت موقف رہا ہے۔ اب پتہ نہیں ایم کیو ایم نے کس طرح اپنی نئی حلیف جماعت کے اس اعلان کو ہضم کیا ہوگا۔

جب جسٹس خلیل الرحمان رمدے سے ان کی رہائی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ان کا زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہے کہ سول سوسائٹی نے ان کے حق میں آواز بلند کی۔ اسے وہ کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔ انہوں نے کہا جس طرح وکلا اور سول سوسائٹی نے ججوں کے حق میں تحریک چلائی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے جو بھی فیصلے سپریم کورٹ میں بیٹھ کر کئے ان سے عوام خوش تھے۔

معزول ججوں کی رہائی پر عوامی پذیرائی پر صدارتی کیمپ میں تو سراسیمگی پھیل گئی ہوگی۔ جس طرح مہمانوں نے اس اعلان کے بعد گو مشرف گو کے نعرے لگائے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صدر مشرف پاکستان کی تاریخ کے غیرمقبول ترین حکمران بن گئے ہیں۔ پتہ نہیں صدر مشرف جو اپنے آپ کو ایک مدبر اور انتہائی سمجھدار سمجھتے ہیں کس طرح اپنے نادان مشیروں کے کہنے پر ابھی تک صدارت کی کرسی سے چپکے ہوئے ہیں۔ اگر ان میں ذرہ برابر بھی کمانڈو غیرت ہے تو انہیں آج کے بعد صدارتی محل یعنی آرمی ہاؤس خالی کردینا چاہیے کیونکہ پاکستانی عوام نے انہیں اب مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔

اگر صدر مشرف عقل مند ہوتے تو انتخابات میں مسلم لیگ کی شکست کے بعد استعفیٰ دے کر شوکت عزیز کی طرح گارڈ آف آنر لیتے اور عزت سے گھر چلے جاتے تاکہ تاریخ ان کی سال 2007 کی غلطیوں کو بھول کر ایک اچھے حکمران کے طور پر یاد رکھتی۔ ایک نہ ایک دن تو مشرف صاحب نے جانا ہی ہے اب اگر وہ اپنے اختیارات گنوا کر اور چوہدری فضل الٰہی کی طرح کے صدر بن کر صدارتی محل میں رہے تو کیا فائدہ۔ کہاں ایک جری جرنیل اور ڈکٹیٹر اور کہاں آخر میں رسوا ہو گھر جانے کیلیے تیار رہنا۔ اسے کہتے ہیں مقافات عمل۔

قومی اسمبلی میں کل سب سے مختصر اور جاندار تقریر اسفند یارولی خان کی تھی۔ ان کی اس بات سے ہم پوری طرح متفق ہیں کہ اگر ججوں کی رہائی کیساتھ ساتھ سیاستدانوں اور قومیت پسند لیڈروں کی رہائی کا بھی اعلان ہوجاتا تو بہت اچھا ہوتا۔

اب وزیراعظم اور قومی اسمبلی کی اگلی منزل ججوں کی بحالی ہے۔ دیکھیے یہ خوشی کتنے دن قائم رہتی ہے  یا کب ججوں کو بحال کرکے اس خوشی کو دوبالا کیا جاتا ہے۔