ڈاکٹر شیرافگن جنہوں نے کئی پارٹیاں بدل کر لوٹا ہونے کا ریکارڈ قائم کر رکھا ہے اپنے آخری وزارت کے دور میں بادشاہ کی شہ پر وکیلوں اور معزول ججوں کیخلاف وہ زہر اگلا کہ جسے سن کر تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی مگر کوئی کچھ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ لاچاری آڑے آتی تھی۔ ڈاکٹر شیر افگن کے ہاتھوں سے قانون کی کوئی ایسی شق نہیں بچی ہوگی جس کا حوالہ دے کر انہوں نے جنرل مشرف کی آمریت کو سچ ثابت کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ میڈیا پر ڈاکٹر صاحب کی موشگافیوں نے کئی لوگوں کے دل دکھائے اور لاچار لوگ اس انتظار میں تھے کہ کوئی موقع ملے اور وہ ان سے اپنا بدلہ لیں۔

ڈاکٹر صاحب کی قسمت بری کہ ان کو کسی نے لاہور کے ہوٹل میں دیکھ لیا۔  پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے ان کے ستائے ہوئے وکلاء ڈنڈے پکڑ کر جوق در جوق ہوٹل پہنچنے لگے اور ہوٹل کو گھیرے میں لے لیا۔ وکلاء اتنے غصے میں تھے کہ انہوں نے سپریم کورٹ بار کے صدر چوہدری اعتدزاز احسن کی بھی ایک نہ سنی اور ڈاکٹرشیرافگن کی پٹائی کردی۔ ان کے کپڑے پھاڑ دیے اور گالیاں دیں۔

ارباب رحیم کے بعد ڈاکٹرشیرافگن دوسرے سیاستدان ہیں جنہیں عام پبلک کے غصے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مانا جو کچھ دونوں صاحبان کیساتھ ہوا غلط ہوا مگر یہ بات بھی یاد رہے کہ لاچار آدمی کو جب موقع ملتا ہے تو پھر وہ قانون دان ہوتے ہوئے بھی قانون کی پرواہ نہیں کرتا۔ ہم عملی زندگی میں اپنے اردگرد اگر نظر دوڑائیں تو ہمیں قدم قدم پر لاچار افراد ظلم کا شکار نظر آئیں گے۔ کوئی فقیر کو جھڑک رہا ہوگا، کوئی صفائی والے کو گالی دے رہا ہوگا، کوئی بیرے کو تھپڑ مار رہا ہوگا اور کوئی تو پولیس والے کو ٹھلا کہ کر بھاگ رہا ہو گا۔ ایسے مظالم کے بعد  یہ لاچاری ایک دن غصے میں بدل جاتی ہے اور پھر ایک کمزور سا آدمی ایسا وار کرتا ہے کہ طاقتور کو نانی یاد آ جاتی ہے۔ 

چند سال قبل ایک لاچار سپاہی نے ایک سینئر پولیس افسر کو اسی لیے گولی مار دی کہ وہ اس کی گالیوں سے تنگ آ چکا تھا۔ ہمارے علاقے میں ایک عام سے آدمی نے شہر کے بدمعاش کے بیٹے کو قتل کردیا کیونکہ اس نے اس کے گھر کے سامنے اسے ماں بہن کی گالیاں دینا شروع کردی تھیں۔ ہمیں خود یاد ہے بچپن میں ایک محلے دار لڑکا جو بدمعاش تھا ہمیں تنگ کیا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے جب فقرہ کسا تو ہم نے غصے میں اتنے زور سے اسے مکا مارا کہ وہ زمین پر گر گیا۔ اس سےپہلے کہ وہ اٹھ کر ہماری درگت بناتا ہم نے وہاں سے دوڑ لگا دی۔

لاچاری اور لاچاری کے غصے کا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے کہ لاچار کے حقوق کا احترام کیا جائے اور طاقتور اپنی طاقت میں نشے میں لاچاروں پر ظلم کرنا بند کردیں۔ اگر معاشرے کے تمام چھوٹے بڑے لوگوں کو بلاتفریق انصاف مل جائے تو پھر ہماری فرسٹریشن ختم ہو جائے گی اور لوگ موقع ملتے ہی طاقتوروں کی درگت بنانے سے گریز کریں گے۔ طاقتوروں کی درگت تبھی بنتی ہے جب وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتےہیں۔ جس دن طاقتور کو اس کے جرم کی سزا عدالتوں سے ملنا شروع ہوگئی لاچار اسی دن اپنا غصہ دفن کردیں گے۔ تب تک سابقہ طاقتور عام پبلک مقامات پر جانے سے گریز کریں اور گھر میں آرام کریں۔

 یہ سچ ہے کہ دنیا میں بہادر وہی ہے جو طاقت ور ہونے کے باوجود انتقام نہ لے اور اپنے غصے پر قابو رکھے۔  لیکن اس طرح کے بہادر اب کم از کم پاکستانی دھرتی سے ناپید ہوچکے ہیں۔

ہماری موجودہ حکومت کو ایسے واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنی طاقت کے نشے میں ایسے اقدامات سے بچنا چاہیے جو کل کو ان کی بھی رسوائی کا باعث نہ بنیں۔