ارباب رحیم نے اپنے دور میں لوگوں کو جسمانی اور روحانی تکالیف پہنچائیں اور اب وہ خود تکلیف کا شکار ہوئے ہیں۔ ڈاکٹرشیرافگن کی زبان درازی  اور شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری نے بہت سارے لوگوں کو اپنا دشمن بنا لیا اور پھر ان کی شامت آگئی۔  اس کے بدلے میں ڈاکٹرشیرافگن کے حمائتیوں نے وہی کچھ کیا جو شیرافگن کیساتھ ہوا۔ یعنی ایک طرف ڈاکٹرشیرافگن کو سفید کپڑوں والوں نے پیٹا تو دوسری طرف ڈاکٹرشیرافگن کے لوگوں نے وکیلوں کے ٹھکانوں میں توڑ پھوڑ کی اور بار کی عمارت کو نقصان پہنچایا۔ جس طرح اعتزاز احسن سفید کپڑوں والوں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے رہے اب اسی طرح ڈاکٹرشیرافگن نے اپنے لوگوں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ویسے تو ڈاکٹرشیرافگن کی زیادتیوں کا بدلہ یہی کافی تھا کہ انہی کے گروپ کے چوہدری برادران نے انہیں انتخابات میں شکست سے دوچار کیا۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا ایم کیو ایم کے لوگوں نے حقیقی کے ایم پی اے کی اسمبلی کے باہر ٹھکائی کی اور اب ارباب رحیم کی ٹھکائی ہوئی تو انہیں برا لگا۔ ایک طرف ایم کیو ایم نے ارباب رحيم اور ڈاکٹرشیرافگن پر تشدد کی مزمت کی تو دوسری طرف کراچی میں اپنے مخالف وکلاء کی ٹھکائی کرکے حساب برابر کر دیا۔ اس کے بعد کراچی میں ہنگامے پھوٹ پڑے جن سے تخریب کاروں نے خوب فائدہ اٹھایا اور شہر کا بہت سارا نقصان کردیا۔

ڈاکٹرشیرافگن کی ٹھکائی میں واقعی وکلاء دور کھڑے تماشا دیکھتے رہے اور سفید کپڑوں والے شیرافگن کو مارتے رہے۔ دوسرے کئی لوگوں کی طرح بلاگر قدیر کی بات ٹھیک لگتی ہے کہ وکلاء تحریک کو نقصان پہنچانے کیلیے یہ سارا ڈرامہ رچایا گیا جس میں ڈاکٹرشیرافگن جیسا بوڑھا آدمی ذلیل و رسوا ہوگیا۔

ڈاکٹرصاحب کی پٹائی ایک سازش کے تحت کی گئی اور پیٹنے والوں نے کئی ثوبت بھی چھوڑ دیے ہیں۔ مانا کہ ڈاکٹرصاحب کو کچہری میں بند کیا گیا۔ اس طرح وکلاء اس زیادتی میں ملوث ہونے سے بچ نہیں سکتے مگر یہ سفید کپڑوں والے کہاں سے آگئے۔ ابھی کل کی بات ہے یہی سفید کپڑوں والے وکلاء کو پیٹ رہے تھے اور ججوں کی تضحیک کر رہےتھے۔ یہی سفید کپڑوں والے جنہیں صدرمشرف نے ہرجگہ استعمال کیا اسلام آباد کے ہر احتجاجی جلوس کے آگے پیچھے پھرا کرتے تھے۔

ڈاکٹرشیرافگن کو چھ گھنٹے ایک کمرے میں بند رکھا گیا اور پولیس یا رینجرز ان کی مدد کو نہیں پہنچی۔ جب ان کی مرمت ہوچکی تو پھر پنجاب کے گورنر خالد مقبول تھانے سے انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔ گورنر پبنجاب نے دیر کیوں کی یہ بھی سازش کی ایک کڑی لگتی ہے۔

ڈاکٹرشیرافگن کی ٹھکائی اور میانوالی میں توڑ پھوڑ میں پی پی پی کی وفاقی حکومت تماشا دیکھتی رہی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وکلاء کی تحریک کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ایک بات نہیں بھولنی چاہیے اب قوم اتنی بیدار ہوچکی ہے کہ وہ اپنے اصل ٹارگٹ کو بھولنے والی نہیں ہے۔ چاہے ججوں کی بحالی میں تاخیر کے بہانے ڈھونڈے جائیں یا اس تحریک کو بدنام کیا جائے، یہ تحریک دبنے والی نہیں ہے۔ ایک نہ ایک دن حکومت کو ججوں کو بحال کرنا پڑے گا یا پھر صدر مشرف کے دور کی طرح سخت دن دیکھنا پڑیں گے۔

دو دن کی کاروائی سے یہی ثابت ہوا ہے کہ سب ایک جیسے ہیں۔ اگر کسی نے زیادتی کی تو ردعمل بھی اسی وقت سامنے آگیا۔ ایم کیو ایم جو بیان داغنےمیں اپنا ثانی نہیں رکھتی اور جسے میڈیا کو استممال کرنے کا گر آ چکا ہے وہ  بھی درگزر کی پالیسی نہیں اپنا رہی۔ وہ بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہی ہے تبھی تو الطاف حسین نے دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں۔

اس سارے ڈرامے میں اگر کسی کا خلوص نظر آیا ہے تو وہ ہیں چوہدری اعتزاز احسن جنہوں نے پہلے تو ڈاکٹر شیرافگن کو بچانے کی بھرپور کوشش کی اور پھر اپنی ناکامی کو تسلیم کرت ہوئے سپریم کورٹ بار کی صدارت سے استعفٰی دے دیا۔ یہ ہوتی ہے اصولوں کی بات۔