بچہ جونہی ہوش سنبھالتا ہے وہ پہلے تو کھڑے ہونے کی کوشش میں بار بار گرتا ہے۔  پھر جب چلنے لگتا ہے تو بھاگنے کی کوشش کرتا ہے اور کئی بار جلدبازی میں اسے چوٹیں بھی لگتی ہیں۔ اسی لیے جب کوئی جلدبازی میں اپنا نقصان کر بیٹھے تو اسے کہتے ہیں بچہ تھا سوچ سمجھ کر قدم نہیں اٹھا سکا۔

جلد بازی کسی بھی معاملے میں نقصان دہ ہوتی ہے۔ آپ ایک دفعہ کمپیوٹر پر ہماری طرح کوئی تحریر لکھ کر چھاپ دیں تو بعد میں کئی غلطیاں پکڑی جائیں گی۔ اگر ہم یہی تحریر چھاپنے سے پہلے ایک دو دفعہ پڑھ لیں تو سادہ غلطیوں سے بچ سکتے ہیں۔ اسی مقصد کیلیے اخباروالوں اور کتب چھاپنے والوں نے پروف ریڈر رکھے ہوتے ہیں۔

اسی طرح اگر آپ نے دوسرے پر بھروسہ کرکے اس کے کام کو من و عن آگے بھیج دیا اور بعد میں پتہ چلا کہ آپ اگر اس کو خود دیکھ لیتے تو کئی غلطیوں کی نشاندہی کرسکتے تھے جن کی وجہ سے آپ کو مالی نقسان ہوا۔ بعد میں آپ کو اس نقصان کا ازالہ کرنے کیلیے مزید کام کرنا پڑا۔

کراچی کے بارہ مئی اور نو اپریل کے واقعات ایم کیو ایم کی پیشانی پر ایک بدنما داغ بن کر چپکے رہیں گے۔ اگر ایم کیو ایم صدر مشرف کی اندھی تقلید کرنے کی بجائے کچھ سوچ بچار کرلیتی تو وہ اپنی بدنامی کیساتھ کیساتھ کئی بے گناہوں کی جانیں بھی بچا سکتی تھی۔ ہوسکتا ہے ایم کیو ایم کے کرتا دھرتاؤں نے اپنی طاقت دکھانے کیلیے اسی طرح ان واقعات کا سہارا لیا ہو جس طرح امریکہ نے مسلمانوں کو گوانٹاناموبے میں قید رکھ کر طاقت دکھانے کی جلدباری کی۔

جلدبازی کی عادت انسان کو جوئے میں بھی مبتلا کردیتی ہے۔ آدمی راتوں رات امیر بننے کے چکر میں اپنی جمع پونجی سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ لوگ ساری زندگی لاٹری میں رقم لگاتے رہتے ہیں بس اسی امید میں کہ وہ ایک دم دولت مند ہوجائیں۔ لیکن دوسری طرف آپ دیکھیں تو لاٹری ميں لاکھوں کروڑوں آدمیوں میں سے صرف ایک آدمی کی قسمت جاگتی ہے باقی اسے امیر بنانے کیلیے اپنی رقم ضائع کردیتے ہیں۔ اسی جلدبازی کا شاخسانہ ہے کہ لوگ لاٹری حاصل کرنے والے ایک آدمی کی طرف دیکھتے ہیں اور ان ہارے ہوئے لاکھوں انسانوں کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ اگر وہ ہارنے والوں کے بارے میں سوچیں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ نناوے فیصد لوگ محنت کے بل بوتے پر زندہ ہیں لاٹری پر نہیں۔

کئی لوگ نوکری پر نوکری بدلتے رہتے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ پائیں مگر اس جلدبادی میں وہ اپنا کیریئر تباہ کرلیتے ہیں۔ ان کی نسبت ایک ہی محکمے میں دلجمعی سے کام کرنے والا ایک دن بڑا افسر بن جاتا ہے اور صبر کا پھل پاتا ہے۔ یہی حال بعض طلبا کا بھی ہے وہ یہ دیکھے بناں کہ ان کی دلچسپی کس مضمون ميں ہے وہ ایسے مضامیں چنتے ہیں جن کی وجہ سے وہ جلد امیر بن سکیں مگر بعد میں کئی تو ان مضامین میں بار بار فیل ہونے لگتے ہیں اور کئی ساری عمر ناپسند پیشے سے منسلگ رہ کر اپنا سکون برباد کئے رکھتے ہیں۔

تجربے نے ہمیں تو یہی سکھایا ہے کہ جس کام کے بھی پیچھے پڑو سوچ سمجھ کر پڑو اور جب کسی کام کے پیچھے پڑ جاؤ تو پھر اسے انتہا تک پہنچا کر دم لو۔ سارے انسانوں کی قسمت ایک جیسی نہیںہوتی اس لیے دوسروں کی نقالی میں وقت برباد کرنے کی بجائے ہمیں اپنی قابلیت اور ہمت کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی میں سکون ہے اور بہتری ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ہمیشہ اپنے سے اوپر والوں کی طرف نہیں بلکلہ اپنے سے  نیچے والوں کی طرف دیکھو یعنی دوسرے لفظوں میں قناعت پسندی سے کام لو اور ہرکام میں میانہ روی رکھو۔ یہی اسلام کا سنہرا اصول ہے جسے ہم آجکل کے مسلمان نئی ٹیکنالوجی کی چکاچوند روشنی میں بھلائے بیٹھے ہیں اور راتوں رات امیر بننے کیلیے ڈاکوں، چوریوں، فراڈ، جھوٹ اور دھوکے کا سہارا لینے کے چکر میں اپنی زندگیاں خراب کررہے ہیں۔