آجکل پاکستان میں آٹے اور توانائی کے بحران نے اگر کسی کو نقصان نہیں پہنچایا تو وہ ہیں ڈاکو۔ کسی دن کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیں ڈاکوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اخبارات صرف لاہور شہر کے ڈاکوں کی خبر ایک شہ سرخی کیساتھ شائع کرتے ہیں اور اس میں سو دو سو ڈاکوں کی سمری بیان کردیتے ہیں۔ اب تو کوئی دن خالی نہیں جاتا جب ہم لوگ اپنے کسی دوست عزیز سے یہ نہیں سنتے کہ وہ لٹ گیا۔ کوئی باہر چلتے ہوئے لٹ رہا ہے تو کوئی گھر بیٹھے بٹھائے لٹ رہا ہے۔

  ایک وقت تھا لوگ اپنے گھروں کے دروازے کھلے رکھا کرتے تھے کیونکہ تب ڈاکے نہیں پڑا کرتے تھے ہاں کبھی کبھار کسی کے گھر رات کو چور گھس کر اس کے مال کا صفایا کرچاتے تھے۔ اب لوگ گھروں کے دروازوں پر تالے لگاتے ہیں پھر بھی وہ دن دیہاڑے لٹ رہے ہیں۔ موجودہ دور کے ڈاکو ان پڑھ نہیں ہیں بلکہ اتنے پڑھے لکھے ہیں کہ وہ ڈاکے کی پہلے پلاننگ کرتے ہیں اور اس کے بعد پورا پروجیکٹ دو تین گھنٹے میں مکمل کرکے گھر سے رخصت ہوتے ہیں۔

ویسے زیادہ تر ڈاکو تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے لٹنے والوں کیساتھ بہت اچھا برتاؤ کرتے ہیں لیکن کبھی کبھار جب انہیں اپنی محنت کے معاوضے میں ملاوٹ نظر آتی ہے تو پھر وہ غصے میں آجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے شہر نیویارک میں نئے آنے والوں کو سب سے پہلا سبق یہی پڑھایا جاتا ہے کہ وہ اپنی جیب خالی نہ رکھیں کیونکہ لوٹنے والے کو اگر کچھ نہ ملا تو وہ آپ کی جان بھی لے سکتا ہے۔ اسی طرح کا واقعہ چند ہفتے قبل لاہور ميں بھی پیش آیا جب ڈاکوؤں نے صبح کی سیر کرنے والی خواتین سے زیور چھین لیے۔ بعد میں جب زیور نقلی نکلے تو اگلے دن ڈاکوؤں نے خواتین کو دوبارہ پکڑ لیا اور ان کی خوب پٹائی کی۔

اس بدنام زمانہ پیشے کی ترقی کو اگر روکنا ہے تو پھر حکومت کو ہنگامی اقدامات کرنے پڑیں گے۔ نوجوانوں کے روزگار کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ سکولوں میں ان کی اخلاقی تربیت کرنی پڑے گی اور سب سے بڑھ کر ڈاکوؤں کی حوصلہ شکنی کیلیے پولیس اور عدالتی نظام کو درست کرنا پڑے گا۔ ابھی تو شاذونادر ہی اخبار میں کسی ڈاکو کے پکڑے جانے یا پھر اس کو سزا دینے کی خبر چھپتی ہے۔ مطلب یہی ہے کہ نہ پولیس اپنا فرض ادا کررہی ہے اور نہ ہی عدالتیں ٹھیک طرح سے کام کررہی ہیں۔

اگر آج حکومت صرف اور صرف پولیس اور عدالتی نظام کو درست کرنے کا بیڑہ اٹھا لے تو ملک سے نوے فیصد ڈاکے ختم ہوجائیں گے۔ مگر حکومت اور اس کے غیرملکی آقا نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے۔ اسی لیے غیرملکی آقا پاکستان کو دفاعی امداد تو دے رہے ہیں مگر ملک کی بہتری کیلیے کچھ نہیں کر رہے۔ ہمارے حکمران بھی اپنی جیبیں بھر رہے ہیں انہیں اس بات کی پرواہ نہیں کہ کوئی لٹ رہا ہے یا مر رہا ہے۔

بلوچستان میں 22 محکموں پر 37 وزراء لگا دیے گئے ہیں اور حزب اختلاف میں اکلوتا آدمی بیٹھا ان کا منہ چڑا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی لیول سے ڈاکوں کا تسلسل عام آدمی تک پھیلا ہوا  ہے اور یہ پیشہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ الیکڑانک میڈیا اس پیشے کی تذلیل میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہا بلکہ اب تو ڈاکے چوری کی ٹی وی پر خبر تک نشر نہیں ہوتی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میڈیا ڈاکے چوریوں کی تسلسل سے خبریں نشر کرتا تاکہ حکومت ایک دن  ان ڈاکوؤں کی سرکوبی کیلیے مجبور ہوجاتی۔