ایک بیٹی نے لکھا “مجھے لوگوں کی برائی سے خوف نہیں آتا کیوںکہ اس میں خود کو بخوبی بچانا جانتی ہیں لیکن مجھے ان کی قدآور نیکیوں سے خوف آتا ہے جن کے سائے میں کھڑے ہو کر وہ اتنے مغرور ہو جاتے ہیں کہ پھر انہیں کوئی دوسرا نظر نہیں آتا سوائے اپنے اور اپنے نیک عمل کے”۔
اس کے اسی طرح کے جلے کٹے اقوالِ زریں پڑھ کر سوچا اسے کچھ سمجھاؤں۔
بیٹی غصہ نہ کرنا اور تحمل سے میری بات سننا۔ تمہارے جلے کٹے اقوال کے جواب میں کوئی بھی نہیں بول رہا۔ لیکن میں ہمت کرکے کچھ کہنے لگا ہوں۔ امید ہے ایک تجربہ کار بزرگ کی باتوں پر دھیان دو گی اور بحث نہیں کرو گی۔
ا۔ کسی کیساتھ بھی بدمزگی ہو جائے تو ہمیشہ دوسروں کو الزام دینے کی بجائے خود کا محاسبہ کرو۔ دوسروں کو سدھارنے کی بجائے خود کو سدھارنا بہت آسان ہے۔
ب – جوش کی بجائے ہمیشہ ہوش سے کام لینے کی عادت ڈالو۔ پتہ ہے غصے میں آدمی جو بھی بولتا ہے اس کا نقصان ہی ہوتا ہے۔
ت – دوسروں سے توقع رکھو مگر خواہش پوری نہ ہونے پر دوسروں کو الزام مت دو بلکہ کوشش کرو کہ دوبارہ ایسی فرمائش کرو ہی نہیں جس کی وجہ سے دوسروں سے نہ سننی پڑے
ازدواجی زندگی کے چند اصول جو زندگی گلزار بنا دیں گے۔
ث – ہمیشہ اپنے جیون ساتھی کیلیے نرم گوشہ رکھو۔ اگر وہ غصے میں بولے تو خاموش ہو جاؤ اور جب غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو پیار سے بات کرو
ج – اپنے ازدواجی مسائل کسی کیساتھ شیئر مت کرو
چ۔ اپنے جیون ساتھی کیلیے قربانی کا جذبہ پیدا کرو
ح۔ ایک دوسرے کی عادتوں کیمطابق جیون ساتھی کو بدلنے کی بجائے اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرو۔
خ۔ جتنے قول لکھے ہیں ان پر اگر خود عمل کرو گی تو زندگی زیادہ آسان رہے گی۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں، سستیوں، کجیوں کو چھوڑ کر دوسروں سے توقعات باندھ لیتے ہیں جب وہ ہماری توقعات پر پورے نہیں اترتے تو پھر ہم ایسے ہی قول لکھنے شروع کر دیتے ہیں۔ بہتر یہی ہو گا کہ خود کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنی کمزوریوں، سستیوں اور کجیوں کا محاسبہ کریں۔
پھر لکھ رہا ہوں کہ ان باتوں کو جھوٹ ثابت کرنے پر وقت ضائع کرنے کی بجائے ان پر ٹھنڈے دل سے غور کرو اور جہاں تک ہو سکے عمل کرنا پھر دیکھنا زندگی آسان گزرے گی۔