قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے جب لیڈروں پر عتاب کا خطرہ منڈلایا تو انہوں نے قائد کو ہی چھوڑ دیا۔ اور اسی گارنٹی پر انہیں رہائی ملی۔ بعد میں الطاف حسین نے معافی مانگی مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔ ہمارے خیال میں رینجرز کو ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت کو اس ضمانت پر چھوڑنا چاہیے تھا کہ وہ عامر لیاقت کی طرح سیاست سے توبہ کر لیں گے۔
ہم نے تو ہمیشہ عمومی طور پر ایم کیو ایم اور خصوصی طور پر الطاف حسین پر تنقید کی ہے اور اس کی وجہ کراچی کے زمینی حالات تھے۔ ایم کیو ایم کیخلاف جب آپریشن ہوا تو انہوں نے آپریشن میں شامل تمام پولیس والے قتل کر دیے۔ انہوں نے اپنے دو بڑے لیڈر اور کئی کارکنان قتل کیے۔
انہوں نے چیف جسٹس کی ریلی کو ناکام بنانے کیلیے قتلِ عام کیا۔
ایم کیو ایم حکومت میں رہتے ہوئے اسی طرح کے جرائم کا ارتکاب کرتی رہی مگر ہمارے حکمرانوں کی خود غرضی اور بے حسی نے ایم کیو ایم کے سانڈھ کو کھلا چھوڑے رکھا۔ اب جب کراچی کے حالات پچھلے کئی سالوں سے کنٹرول نہیں ہو رہے تھے تو فوج کے پاس ایم کیو ایم کیخلاف کاروائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ غلطی قائد الطاف اور ایم کیو ایم کے دوسرے لیڈران کی جنہوں نے نوشتہء دیوار نہ پڑھا اور اول فول بکتے رہے یہ سوچ کر کہ ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالے گا۔
الطاف حسین کو اب بھی اگر عقل آ جائے تو اس سے بڑے نقصان سے بھی بچ جائیں گے وگرنہ ان کی کئی دہائیوں کی محنت خاک میں ملتی نظر آ رہی ہے۔