اس ویک اینڈ پر مغرب کی نماز کے بعد مسجد کے باہر دوست حسب معمول پاکستان کے موجودہ حالات پر تبصرے کر رہے تھے اور جب جنرلوں کی بات چھڑی تو جنرل ضیاء کا ذکر بھی آگیا۔ جب ہم نے جنرل ضیاء جنہیں خاور صاحب جنرل ضیاع کہتے ہیں کی مخالفت میں بیان داغا تو ایک صاحب جو اسلامی جماعت سے وابسطہ ہیں جذبات میں آگئے اور جنرل صاحب کی شان بیان کرنے لگے۔ ان کے جذبات کا یہ عالم تھا کہ ان کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ ہم وقتی طور پر ان کے تیور دیکھ کر دبک بھی گئے۔

وہ صاحب کہنے لگے کہ جنرل ضیاع جیسا مرد مومن صدیوں میں ایک دفعہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ جنرل ضیاع ہی تھے جن کو امامت کیلیے امام کعبہ نے دعوت دی اور انہوں نے مکہ مکرمہ میں نماز پڑھائی۔ پھر کہنے لگے کہ یہ جنرل ضیاع ہی تھے جنہوں نے روسیوں کو افغانستان سے مار بھگایا۔ جب ہم نے کہا کہ روسیوں کو جنرل ضیاع نے نہیں سٹنگر میزائلز نے مار بھگایا تو وہ اور غصے میں آگئے۔ کہنے لگے تمہیں کیا پتہ ہے جنرل ضیاع کتنے پرہیزگار اور مومن آدمی تھے جو پانچ وقت کی نماز پڑھتے تھے۔ جب ہم نے کہا کہ نبی پاک صلعم کے دور میں پانچ وقت کی نماز تو منافق بھی پڑھا کرتے تھے۔ یہ سنتے ہی جب وہ مزید آگ بگولا ہونے لگے تو ہمارے ایک دوست نے ان کی حمایت میں بولنا شروع کردیا اور اس طرح ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

تب سے ہم سوچ رہے ہیں کہ جنرل ضیاع کیا واقعی مرد مومن مرد حق تھے یا پھر منافق تھے جو اتحددیوں کے ہاتھوں بک چکے تھے۔ آئیں ان کے اچھے اور برے دونوں کارناموں کی پہلے لسٹ بناتے ہیں اور پھر اس کے بعد اختتامی کلمات میں ان کی شخصیت کا احاطہ کرتے ہیں۔

اچھائیاں

صدر بنتے ہی سگریٹ نوشی ترک کر دی

عوام کو بچت کی ترغیب دینے کیلیے سائیکل کی سواری کی

روس کے خلاف امریکہ کی جنگ لڑ کر پاکستان میں خوشحالی لائے

قومی لباس شلوار قمیض اور شیروانی کا رواج عام کیا

شان و شوکت سے یوم آزادی منانے کی طرح ڈالی

اسلامی قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی

مہنگائی قابو میں رہی

مسجد مکتب سکولوں کی بنیاد ڈالی

اسلامی بینکاری کی ابتدا کی

بطور حکمران سب سے زیادہ عمرے کیے اور حکمرانی کا دور عبادت میں گزارا

بظاہر کوئی کرپشن نہیں کی

اقربا پروری سے اجتناب کیا

ایٹمی پروگرام جاری رکھا

فلمی صنعت اور ٹی وی پر بے حیائی کو کنٹرول کیا

ولی خان فیملی پر غداری کا مقدمہ ختم کیا اور انہیں رہائی دلائی

دفاتر میں نماز کا وقفہ متعارف کرایا

برائیاں

بھٹو کا سیاسی قتل کیا

نوے دن میں انتخابات کرانے کے وعدے سے مکر گئے

کلاشنکوف کلچر متعارف کرایا

ایم کیو ایم کی بنیاد ڈال کر کراچی سے پی پی پی اور اسلامی جماعت کا صفایا کیا

ہیروئین پاکستان میں عام ہو گئی

پاکستان کو لاکھوں افغان پناہ گزینوں کا تحفہ دیا

اوجڑی کیمپ کے حادثے کے محرکات کو دبا دیا

اپنے ساتھی جنرلوں کی کرپشن پر آنکھیں بند رکھیں

گیارہ سال میں پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہیں کر سکے

جونیجو حکومت ختم کی

پی سی او کے تحت ججوں سے حلف لیا اور کئی جج فارغ کیے

میڈیا پر پابندیاں لگائیں

اسلام کے نام پر روس کی جنگ امریکہ کیلیے لڑی

امریکہ کے سٹنگر میزائلوں سے روس کو شکست دے کر اسے اسلام کی فتح قرار دیا

اسلامی بینکاری کا فراڈ رچایا

اسلام کے نفاذ کا ڈرامہ گیارہ سال تک کھیلا

مستقبل کی توانائی کی ضروریات کیلیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی

ام المومنین نے عمرے اور حج سرکاری خرچ پر کیے

ان چھائیوں اور برائیوں کا اگر موازنہ کریں تو جنرل ضیاع کی نوے فیصد اچھائیاں صرف ان کی ذات کی حد تک محدود تھیں جن کا قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر چند روز سائیکل پر دفتر جانا، شلوار قمیض اور شیروانی پہننا، دکھاوے کی عبادت کرنا، یوم آزادی منانا، اسلامی بینکاری اور دفاتر میں نماز کا وقفہ سب دکھاوے تھے۔ ان کا مقصد صرف اور صرف روس کی جنگ کے خلاف امریکہ کو مجاہد مہیا کرنا تھا۔ جونہی روس کو شکست ہوئی افغانستان داخلی انتشار کا شکار ہو گیا اور نو گیارہ کے بعد وہی مجاہد دہشت گرد کہلائے۔

جنرل ضیاع نے ملک کو گیارہ سال تک جمہوریت سے دور رکھ کر بہت بڑا نقصان پہنچایا جس کی تلافی نہیں ہو سکے گی۔ جنرل ضیاع نے اسلام کے نام پر قوم سے فراڈ کیا اور اسلام کو اپنے گیارہ سالہ دور اقتدار میں بھی مکمل نافذ نہ کر کےاسے ایک مشکل مذہب ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جنرل ضیاع نے نسلی امتیاز کی بنیاد پر ایم کیو ایم کی بنیاد ڈالی جو آنے والے سالوں میں کراچی کو قتل و غارت کا شہر بنانے کا جواز بنی۔ جنرل ضیاع نے ملک میں ناں تو کوئی صنعت لگائی اور نہ ہی ذرائع آمدورفت بہتر بنائے۔ جنرل ضیاع نے مستقبل کی بجلی کی ضرورتوں کو دھیان میں نہیں رکھا اور کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا۔

قصہ مختصر ہماری نظر میں جنرل ضیاع اپنے پیشرو جنرل ایوب کی طرح سی آئی اے کا تنخواہ دار ایجینٹ تھا جس نے ایسے  افغانستان کی جنگ کی وجہ سے گیارہ سال تک پاکستان پر آمریت مسلط کیے رکھی جیسے صدر بش نے اپنا دوسرا انتخاب دہشت گردی کی جنگ کی بنیاد پر جیتا اور امریکہ کو ریسیشن کی طرف دھکیل دیا۔

جنرل ضیاع واقعی ملک کے قیمتی گیارہ سال ضائع کر گیا اور صرف اپنی حکومت برقرار رکھنے کیلیے جنرل مشرف کی طرح دوسروں کی جنگ لڑ کر ملک کو دہشت گردی کی آماجگاہ بنا دیا۔ یہ جنرل ضیاع کی باقیات ہی ہیں جن کے تسلسل نے اس وقت ملک کو کرپٹ، غیرمحفوظ اور بنانا ریپبلک بنا کے رکھ دیا ہے۔