جب مشرف دور میں لاپتہ افراد کے لواحقین نے احتجاج شروع کیا تو تینوں بڑی پارٹیوں نے نہ صرف زبانی ان کیساتھ ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ ان کے احتجاجی کیمپوں میں بھی شرکت کی۔ لیکن جوں جوں یہ جماعتیں حکومتی ایوانوں میں قدم رکھتی گئیں، انہوں نے آمنہ مسعود جنجوعہ کی احتجاجی تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اب لاپتہ افراد نے جب پرلیمنٹ کے سامنے احتجاج کرنے کی کوشش کی تو انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ وزیراعظم نوازشریف نے اس تشدد کا نوٹس تو لیا مگر لاپتہ افراد کیساتھ ہونے والی وعدہ خلافیوں پر زبان تک نہیں کھولی۔
ہو سکتا ہے فوج اور آئی ایس آئی نے حکومتی نمائندوں کی برین واشنگ کر دی ہو اور بتایا ہو کہ لاپتہ افراد سب ملک دشمن تھے اور ان کیساتھ جو کچھ ہوا ٹھیک ہوا۔ مگر لاپتہ افراد کے لواحقین کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ ان کے پیاروں کیساتھ کیا ہوا وہ تو بتایا جائے۔ مگر ایسا نہیں ہو گا کیونکہ ان کو غائب کرنے والے بہت بااثر ہیں۔ وہ خود کرپشن کریں، ملک کو لوٹیں اور اسے غیروں کے ہاتھ بیچیں، وہ سب جائز ہے مگر لاپتہ افراد کو غائب کرنا ان کیلیے درست ہے۔ ہمارے حکومتی اداروں کی یہ دوغلی پالیسی ہی ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔