دو دن سے شمالي وزيرستان مين آپريشن جاري ہے اور مسلمان مسلماں کا خون بہا رہے ہين۔ آج سنا ہے کہ جب دونوں طرف کافي جاني نقسان ہو چکا تو آپريشن روک ديا گيا اور اب مزاکرات شروع ہو گۓ ہيں۔
يہي کچھ جنوبي وزيرستان ميں ہوا جو کچہ اب شمالي وزيرستان ميں ہو رہا ہے۔ ايسے لگ رہا ہے کہ پہلے والي فلم نام بدل کر دوبارہ چلائي جارہي ہے۔ ہم اپنے ماضي سے بلکل سبق نہيں سيکھتے اور غلطيوں پر غلطياں کرتے چلے جاتے ہيں۔
ہميں نہيں معلوم کہ حکومت کو اس آپريشن سے کيا فوائدحاصل ہوۓ مگر اتنا معلوم ہے کہ چند نيک لوگ اس دنيا سے بناں کچھ کۓ رخصت ہو گۓ۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت کو ہر ماہ جو ٹارگٹ ملا ہوتا ہے اس کو حاصل کرنےکيلۓ آپريشن ضروري ہو جاتا ہو مگر يہ بات سمجھنے سے قاصر ہيں کہ ايک مسلمان دوسرے مسلمان کو کس ہمت سے قتل کرتا ہے۔ اب پچھلے ايک سال سے قبائيلي علاقے سے کوئي دہشت گردي نہیں ہو رہي تو پھر ان مسلمانوں کو آرام سے ان کي باقي زندگي کے دن کيوں پورے کرنے نہيں ديۓ جارہے۔
اگر ديکھا جاۓ تو حکومت کے پاس کرنے کو اور بہت سارے کام ہيں مگر حکومت سارے کام چھوڑ کر امريکہ کي تقليد ميں صرف دہشت گردي کے پيچھے ہي پڑي ہوئي ہے۔ آپ وزير اعظم اور صدر کي کوئي تقرير اٹھا کر ديکھ ليں آپ کو صرف يہي موضوع نظر آۓ گا کہ دنيا کو دہشت گردوں سے پاک کرنا ہے۔
ہم نے اپنے ماضي سے بلکل سبق نہیں سيکھا کہ کس طرح ترکي جو ايک وقت ميں مسلمانوں کا دارالخلافہ تھا سيکولر بنا ديا گيا اب وہاں پر مسلمان ہوتا جرم بنا ہوا ہے۔ مگر اس کے باوجود ترکي کو يورپ نے ابھي تک دل سے قبول نہيں کيا اور ترکي ابھي تک يورپي يونين کا رکن نہيں بن سکا۔ خيال رہے کہ کہيں يہي حال ہمارا بھي نہ ہو کہ مسلمانوں کا نام ونشان مٹانے اور ملک کي اينٹ سے ايندٹ بجانےکے باوجود ہيم امريکہ کے چہيتے نہ بن سکيں۔