لگتا ہے آصف زرداری نے جیل میں رہ کر شطرنج کا کھیل خوب سیکھا ہے۔ تبھی تو وہ اپنی سیاست میں ہر مہرے کو خوب دیکھ بھال کر استعمال کررہے ہیں۔ لیکن اگر یہ سچ ہے کہ وہ گریجویٹ نہیں ہیں تو پھر وہ شطرنج کی بساط بچھانے اور دشمن کو مات دینے کیلیے کمپیوٹر کی مدد لے رہے ہوں گے اور کمپیوٹر بھی سپر جس کی باگ دوڑ بیرونی جمہوری طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔

اسی مہارت یا پھر سپر کمپیوٹر کی مدد سے پہلے آصف زرداری صاحب نے مسلم لیگ نواز کے ساتھ ملکر مرکز میں حکومت بنائی اور تاثر یہی دیا کہ وہ صرف اور صرف مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی سے ملکر حکومت سازی کریں گے۔  دوسری طرف مسلم لیگ ن کو تاثر یہ دیا کہ وہ انہیں بادشاہ بنائیں گے اور عوامی نشنل پارٹی کو سرحد میں خودمختار بنا کر”شطرنج کا رخ” بنا دیں گے۔ بعد میں انہوں نے مولانا فضل الرحمان کو بھی اپنے کھیل میں شامل کرلیا تاکہ شمالی علاقوں کے طالبان اور بلوچستان کے قوم پرستوں کو وقتی طور پر خاموش کیا جاسکے۔

جب زرداری صاحب کو کمپیوٹر نے بتایا کہ جس کو آپ نے بادشاہ بنایا ہے وہ ایک دن آپ کے وزیر کو ہضم کر جائے گا تب زرداری صاحب نے ایم کیو ایم کے گھوڑوں سے راہ و رسم بڑھائی۔ شطرنج کے گھوڑے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ ٹیڑھی چال چلتا ہے۔ وہ دیکھتا کہیں ہے اور حملہ کہیں اور کرتا ہے۔ اسی خوبی کی بنیاد پر ایم کیو ایم نے دیکھا پیپلز پارٹي کی طرف اور پچھاڑ دیا مسلم لیگ ق کو۔ اس سے پہلے جب بھی گھوڑے نے حملہ کیا ہاتھی نے ہمیشہ مزاحمت کی مگر اس دفعہ  بیرونی جمہوری طاقتوں نے مسلم لیگ ق کو اس کے ہاتھی کی سونڈ میں چیونٹی گھسانے کا ڈراوا دے کر خاموش کردیا حالانکہ اس سے پہلے جب بھی کسی سیاسی پارٹی نے ایک اتحاد سے دوسرے اتحاد میں نقل مکانی کی پہلے اتحاد نے اسے اپنا دشمن سمجھ لیا مگر اس دفعہ مسلم لیگ ق نے ایسا نہیں کیا۔

اب آصف زرداری صاحب ایک طرف مسلم لیگ ن کے بادشاہ کو گھوڑوں اور ہاتھیوں سے ڈرا رہے ہیں تو دوسری طرف گھوڑوں اور ہاتھیوں کو بادشاہ کا ڈراوا دے رہے ہیں۔ تیسری طرف وہ صدر مشرف کو بھی خوب استعمال کررہے ہیں اور اس ڈراوے کیلیے وہ مسلم لیگ ن کا بادشاہ استعمال کررہے ہیں۔

آصف زرداری نے سیاسی شطرنج کا ایسا کھیل شروع کیا ہے جو ان کے خیال میں کئی سال جاری رہے گا کیونکہ بیرونی جمہوری طاقتوں کے کمپیوٹر کی مدد انہیں حاصل رہے گی۔ اب اس کھیل میں وہ مسلم لیگ ن کے بادشاہ، ایم کیو ایم کے گھوڑے، مسلم لیگ ق کے ہاتھی ، عوامی نشنل پارٹی کے رخ اور صدر مشرف اور مولانا فضل الرحمان کے پیادوں کو کتنی دیر تک الجھائے رکھتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

آصف زرداری صاحب کو لیکن ایک اصول کبھی نہیں بھولنا چاہیے اور وہ ہے دوکشتیوں کا سوار کبھی کنارے پر نہیں پنہچ پاتا یا پھر دو گھروں کا مہمان ہمیشہ بھوکا سوتا ہے۔ اگر آصف زرداری نے سیاست میں اسی طرح دوغلی قلابازیاں جاری رکھیں تو ایک دن ان کی گردن میں بل بھی پڑسکتا ہے۔ تب نہ بیرونی جمہوری قوتوں کا کمپیوٹر ان کی مدد کو پہنچے گا اور نہ ان کے اتحادی بادشاہ، گھوڑے، ہاتھی، رخ اور پیادے کچھ کر پائیںگے۔

 پتہ نہیں کیوں ہم شطرنج کے کھیل میں عوامی پیادوںکو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ یہ وہی پیادے ہوتے ہیں جواگلی صفوں پر لڑتے ہیں اور سب سے پہلے جان قربان کرتے ہیں۔ باقی گھوڑے، ہاتھی، رخ ، بادشاہ وزیر سب ان پیادوں کی آڑ میں اپنی جان بچاتے ہیں۔ جو شاطر کھلاڑی شطرنج کے کھیل میں پیادوں کی اہمیت سے واقف نہیں ہوتے وہ کبھی شطرنج کا کھیل نہیں جیت سکتے۔ اس لیے ہماری آصف زرداری صاحب سے یہی گزارش ہے کہ خدارا عوامی پیادوں کی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے سیاسی شطرنج کا کھیل کھیلیے۔ یہ نہ ہو کہ آپ  کے حواری عوامی پیادوں کا صفایا کرکے آپ کو میدان سیاست میں دشمن کے سامنے ننگا کر دیں۔ اس وقت آپ کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ آپ کو ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاع ، بینظیر اور نواز شریف کے انجاموں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ شطرنج کھیل ہی دوسروں کی غلطیوں سے فائدہ اٹھانے کا نام ہے۔ اگر آپ نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی کوشش کی تو پھر بہت دیر ہوجائے گی اور آپ کو شکست سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔