میرے ماں باپ کی شادی 23 مارچ 1940 کو لاہور کے ایک کھلے میدان میں ہوئی جس کا نام اب مینار پاکستان پارک ہے۔ مجھے پیدا ہوتے سات سال لگ گئے اور میں 14 اگست 1947 کو پیدا ہوا۔ ایک سال کا تھا کہ ماں “جمہوريت” فوت ہو گئي اور اس کے بعد باپ “دین اسلام” چھوڑ کر کہيں چلا گيا۔ اس کے بعد ميرے گھر کے پہلے سربراہ کوگھر والوں کے سامنے ايک ايسي سازش کے تحت قتل کرديا گیا جس کا آج تک سراغ نہيں ملا۔  پھر اپنے خود غرض رشتہ داروں کے گھر بچپن گزارا اور لڑکپن آرمي کی بیرکوں میں۔ جنرل ایوب کے گھر میں بیمار ھوا اور جنرل یحيی کے ھسپتال میں داخل ہوا جہاں سرجن ذوالفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر مجیب الرّحمان نے میرا ایک بازو کاٹ دیا۔ لیکن مجھے معزور کرنے والوں کا عبرتناک انجام تاريخ ميں رقم ہوگيا۔ جنرل يحيٰ گمنامي ميں ہي رخصت ہوگيا۔ سرجن ذوالفقار علي بھٹو ايک جلاد تارا مسيح کے ہاتھوں پھانسي چڑھ گيا اور ڈاکٹر شيخ مجيب الرحمٰن کو اسي کے لوگوں نے خاندان کے بيشتر افراد سميت واصل جہنم کرديا۔

اس کے بعد سےاب تک میں معزور فقیر بن کر ایک ہاتھ سے جگہ جگہ بھیک مانگ رہا ہوں۔ پچیس سال کی عمر میں جمہوریّت نصیب ہوئی جس کا سربراہ ملک کا پہلا سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھا۔ مگر چند سال کے بعد پھر جنرل ضیا الحق نے مجھے فوجی بیرک میں منتقل کر دیا۔ اس نے اسلام کے نام پر مجھے استعمال کیا اور امریکہ کے کہنے پر افغانستان میں روس کے خلاف نبرد آزما ہو گیا۔ اس جنگ نے کلاشنکوف کلچر کو متعارف کرایا۔ ايک نسلي تنظيم ايم کيو ايم کي بنياد رکھي۔ جب روس امریکہ کے سٹنگر میزائلوں سے ڈر کر بھاگ گیا تو پھر امریکہ کو جنرل ضیا کی ضرورت نہ رہی اور اسے جہنم رسید کر دیا گیا کیونکہ اس نے اسلام کے نام پر بادشاہت چمکانے کی کوششيں شروع کر دی تھیں۔

پھر ڈھلتی جوانی میں دو چار جمہوریّت کے ناکام تجربے کیے گۓ جن کے دوران مجھے جي بھر کر سياستدانوں نے لوٹا۔ اس لوٹ مار ميں کچھ مال ان کي جيبوں ميں چلا گيا اور کچھ عالمي بنک اور آئي ايم ايف نے لوٹ ليا۔ ڈاکو نواز شریف، پارٹی بینظیر اور آصف زرداری باری باری مجھے لوٹتے رہے۔ ان کی اس ہوس کا وہی انجام ہوا جو لٹیروں کا ہوتا ہے یعنی انہیں ملک بدر ہونا پڑا۔

میں1999 سے فوجی بیرک میں آٹھ سال تک مقیم رہا اور حکومت کے بيروني آقاؤں کے رحم و کرم پر بھی۔ اس دوران مجھ پر روشن خيالي، اعتدال پسندي کے تجربے کئے جاتے رہے۔ تعليمي نصاب بدلا گیا۔ مسلمانوں کے اندر سے جہاد کا جذبہ ختم کرنے کي کوششيں جاری رہیں۔ منافع بخش صنعتيں غيرملکي اداروں کو بيچي گئیں جس کي وجہ سے ايسٹ انڈيا کمپني کے دور کو واپس لانے کي بھرپور کوششيں کی گئی۔ ملک کا زرمبادلہ جو نو گيارہ کي بدولت ريکارڈ حدوں کو چھو رہا تھا عام پبلک کيلئے کوئي خوشي نہ لاسکا۔ تعليم جو ملکي ترقي ميں ريڑھ کي ہڈي ہوتي ہے پر کوئي توجہ نہ دی گئی۔ پہلي حکومتوں کي طرح اس حکومت نے بھي درآمدات پر ہر بجٹ ميں ڈيوٹياں کم کر کے مقامي صنعت کا بيڑہ غرق کردیا۔

بھلا ہو فوجی جرنیل کے کم عقل مشيروں کا جنہوں نے جنرل کو چیف جسٹس کے بحران کے کارگل میں دھکیل دیا جس کی وجہ سے جنرل کو وردی اتارنی پڑی اور اسے شفاف انتخابات کرانے پڑے۔ اب میں پھر سے جمہوری دور کا مزہ چکھنے لگا ہوں۔  ریٹائرڈ جنرل سیاسی پارٹیوں کے دباؤ پر اور اپنے احتساب کے خوف سے ٹی وی تقریر کرکے صدارت چھوڑ کر جلاوطنی کے دن گزار رہا ہے۔ خدا کا انتقام دیکھیے جس جنرل نے جمہوری حکومت کے سربراہ کو جلاوطن کیا وہ اب خود جلاوطن ہے۔ سنا ہے شراب کباب کا رسیا نشے میں دھت رہتا ہے۔

پی پی پی کی جمہوری حکومت ڈکٹیٹرشپ سے بھی بڑی غدار نکلی اور ملک کو نہ صرف لوٹا بلکہ بجلی گیس کا بحران پیدا کر کے میرا جینا حرام کر دیا۔ مجھے مزید مقروض کر دیا اور مفاہمت کی سیاست کا سہارا لے کر پانچ پورے کرنے کے ریکارڈز تو بنا لیے مگر مجھے کئی سال پیچھے دھکیل دیا۔
باری کے چکر میں اگلے پانچ سال کیلیے اب مسلم لیگ ن مجھ پر مسلط کر دی گئی ہے۔ وہی جھوٹے دعوے اور وہی چکر جو پی پی پی کا وطیرہ رہے اب مسلم لیگ ن دے رہی ہے۔ عمران خان نے زبانی مجھے تبدیل کرنے کی کوشش کی مگر پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق مسلم لیگ ن کو حکمرانی سونپ دی گئی۔ عمران خان میرے ایک حصے پر حکمرانی کر رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہوتا ہے کہ نہیں۔ اس کا پتہ چلے گا پانچ سال بعد۔ ابھی تو بھٹو کی طرح وہ بھی سب کچھ ٹھیک کرنے کے دعوے کر رہا ہے۔

اب تو ميں اس انتظار میں ہوں کہ کوئی مخلص اور محب وطن میری دیکھ بھال شروع کردے اور میں سکھ کے دن گزارنا شروع کروں۔ ليکن حالات اس دعا کي قبوليت کا اشارہ نہيں دے رہے ۔ ابھي بھي لٹيرے گھات لگائے بيٹھے ہيں اور کسي بھي قيمت پر مجھے لوٹنے کي کوششوں میں مصروف ہيں۔ میں کب خواب غفلت سے جاگ کر ان لٹیروں کو ملک بدر کروں گا یہ مجھے اسلئے معلوم نہیں کہ میں ابھی نیند سے جاگا ہی نہیں۔ کوئی ہے جو مجھے نیند سے جگائے اور میری آنکھیں کھول دے۔