نعروں کے بغیر ملکی سیاست پھیکی پھیکی لگتی ہے۔ تحریک پاکستان کے نعرے آج تک مقبول بلکہ ضرب المثل ہیں، وہ کچھ اسطرح تھے۔
“پاکستان کا مطلب کیا’ لا الہ الا اللہ”
“لے کے رہيں گے پاکستان”
“جب تک پاکستان رہے گا، قائد اعظم تیرا نام رہے گا”
جب ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو سیاسی کارکنوں نے سکولوں پر یلغار کردی۔ وہ سکول پہنچ کر انہیں بند کرواتے اور طالبعلموں کو ساتھ ملا کر جلوس نکالنا شروع کردیتے۔ اسی دور میں ہم نے جو سب سے پہلا نعرہ لوگوں کیساتھ ملکر لگایا وہ تھا
“ایوبا چھاچھی ہائے ہائے”
چھاچھی کا مطلب ہم آج تک نہیں سمجھ سکے۔ ہوسکتا ہے یہ صدر ایوب کی ذات ہو یا پھر ان کی کوئی اور خوبی۔
ہماری یاداشت نعروں کے معاملے میں اتنی اچھی نہیں رہی۔ ہمیں کچھ کامن سے نعرے یاد ہیں۔ جو ہرکوئی استعمال کرتا رہا ہے۔ مثلاً
“جب تک پاکستان رہے گا، ——–تیرا نام رہے گا”
“لاٹھی گولی کی سرکار، نہیں چلے گی نہیں چلے گی”
“——– ساڈا شیر اے، باقی ہیر پھیر اے”
مخالف اس نعرے کی گرہ کچھ اس طرح لگایا کرتے تھے،” مگر پوشلوں [دم} بغیر اے”
“ظالماں دے ظلم دی اخیر ہونی، ٹھاہ
“ظالمو جواب دو، خون کا حساب دو”
“ظلم کے ضابطے، ہم نہیں مانتے ہم نہیں مانتے”
“ایسے دستور کو، صبح بےنور کو، میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا”
“گو —— گو”
“کشمیر بنے گا، پاکستان”
یونیورسٹیوں کالجوں میں اس طرح کا نعرہ بہت مشہور ہوا کرتا تھا، ہر نعرے کے جواب میں سامعین اس جماعت کا سلوگن پکارا کرتے تھے۔
“ذرا زور سے بولو،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“ذرا ہوش سے بولو،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“ذرا جوش سے بولو،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
ہمارے علاقے ميں ایک آدمی ہوتا تھا نیک عالم وہ بھٹو دور میں لوگوں کو دبئ بھیجنے کا کاروبار کیا کرتا تھا۔ پتہ نہیں اسے کیا سوجھی کہ اس نے الیکشن لڑنے کا پروگرام بنا لیا۔ وہ اپنی ویگن میں اپنے چند ورکروں کیساتھ آتا اور جہاں چند لوگ دیکھتا تقریر شروع کردیتا۔ اس کے مخالفین نے اس کا ایک نعرہ بنا رکھا تھا جسے سن کر وہ غصے میں پاگل ہوجاتا اور سپیکر پر ہی گالیاں بکنا شروع کر دیتا۔ نعرہ کچھ اس طرح تھا۔۔
“نیک عالم دی نیک ہوا، پرچی لے کے چلہے[مہذب لفظ] وچ پا”
پرچی اسے کہتے تھے جو ووٹر ووٹ ڈالنےسے پہلے باہر سیاسی جماعت کے ایجینٹ سے لیتا تھا اور جس میں اس کا نام اور ووٹر نمبر لکھا ہوتا تھا۔
چوہدری فضل الٰہی کی شرافت اور بے اختیار صدارت کی وجہ سے ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا تھا۔ حکومت نے دیکھا کہ روز کوئی شخص چوہدری فضل الٰہی کی سرکاری رہائش کی دیوار پر روز یہ نعرے لکھ جاتا تھا۔ ” چوہدری فضل الٰہی کو رہا کرو” پولیس نے ایک رات گھات لگا کر نعرہ لکھنے والے کو پکٹرنے کا پروگرام بنایا۔ جب آدھی رات کو پولیس نے ایک شخص کو چادر میں منہ چھپائے نعرے لکھتے ہوئے دیکھا تو اسے پکڑ لیا۔ جب چادر اس کے چہرے سے اتاری گئ تو وہ خود چوہدری فضل الٰہی تھے۔
نوستاروں کی اسلامی نظام کی تحریک کے بعد جب جنرل ضیاالحق نے آمریت قائم کی تو یہ نعرہ بھی سننے کو ملا۔
“نہ آیا ہل نہ آئی تلوار
آگئی موچھاں والی سرکار”
اس وقت جمہوری اتحاد کا نشان ہل تھا اور پیپلز پارٹی کا تلوار۔ شروع ميں ضیاالحق کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں۔ جونہی جنرل ضیا کا پتلا منہ بڑا ہوتا گیا اس کی مونجھیں چھوٹی ہوتی گئیں۔
آئی جی آئی کی تحریک میں بھٹو کے بارے میں یہ نعرہ بہت مشہور ہوا۔
گنجے کے سر پر ہل چلے گا
گنجہ سر کے بل چلے گا
بینظیر اور نواز شریف کی چپقلش کے دوران ایک اور ہتک آمیز نعرہ اس وقت سننے کو ملا۔ اب ہمیں یہ نہیں معلوم کہ یہ کس پارٹی نے لگایا تھا۔ “لچی اے لفنگی اے۔ گنجے نالوں چنگی اے”۔ ہوسکتا ہے یہ نعرہ پی پی پی کا ہو مگر اس میں بینظیر کی تذلیل بھی عیاں ہے۔
ابھی جسٹس افتخار کی تحریک میں کئی نعرے سامنے آئے ہیں۔ اس تحریک میں پہلی بار فوج کیخلاف بھی نعرے لگائے گئے ہیں۔ ہمیں پوری طرح معلوم نہیں کہ “ناپاک فوج” کا نعرہ کیسے لگا مگر چوہدری شجاعت کو اس نعرے کی بنا پر نعرہ لگانے والے کو گولی مارنے کی تجویز پیش کرنی پڑی جس کا اقرار انہوں نے اسمبلی کے پلیٹ فارم پر بھی کیا۔
ابھی آج کےجسٹس افتخار کی بحالی کے احتجاج میں یہ نعرے سننے کو ملے۔
“عدلیہ کو آزاد کرو”
“آئین کا تارا مسیح، شریف الدین شریف الدین”
“مشرف تیرے ضابطے ہم نہیں مانتے، امریکہ سے تیرے رابطے ہم نہیں مانتے”
“عدلیہ کی آزدی تک، جنگ رہے گی جنگ رہے گی”
جب ملک پر فوجي حکومت کررہا ہو اور اس کا يہ بھي دعويٰ ہو کہ اس نے ملک ميں جمہوريت بحال کررکھي ہے تو پھرعوام فوج کو بھي ايک سياسي پارٹي سمجھنے لگتے ہيں اور اس کے نعرے بھي لگانے لگتے ہيں۔ ایک تازہ نعرہ ہمیں اپنے ساتھی بلاگر “تمیزدار” کی زبانی معلوم ہوا ہے۔ یہ نعرہ ہے جاندار اور کسی پختہ ذہن کی اختراع ہے۔
“پاکستان دیاں موجاں ای موجاں
جتھے ویکھو فوجاں ای فوجاں”
اسي طرح کسي منچلے نے ايک قومي ترانے کي پيروڈي بھي بنا دي ہے۔ اصل ترانہ جو نور جہاں نے گايا تھا وہ کچھ اس طرح تھا
“اے وطن کے سجيلے جوانو
ميرے نغمے تمہارے ليے ہيں”
اور اس کي پيروڈي اس طرح ہے
“اے وطن کے سجيلے جرنيلو
سارے رقبے تمہارے ليے ہيں
کوٹھيوں کے طلبگار ہو تم
پلاٹوں کے پرستار ہو تم
او لالچ کي زندہ مثالو
يہ سودے تمہارے ليے ہيں
اے وطن کے سجيلے ——-“
نوٹ۔ ہم نے ايک نہايت سخت لفظ” ذلالت” کو” لالچ” سے بدل ديا ہے۔
پچھلے دنوں جب ایم کیو ایم پر بحث چھڑی تو ایک یہ نعرہ بھی سننےکو ملا “جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے”
ابھی 26 مئی کے چیف جسٹس کے سپریم کورٹ بار کے خطاب کی تقریب میں یہ نعرے بھی لگائے گئے
“پاکستان کا مطلب کیا؟ چوری، ڈاکے اور اغوا”
“یہ جو غنڈہ گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے”
“کھال اتارو، ملک سنوارو”
اس پوسٹ کو مکمل کرنے کیلیے ہمیں اپنے ساتھیوں اور قارئین کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ امید ہے وہ اپنی یاداشت میں موجود نعروں کو اپنے تبصروں میں لکھ کر اس پوسٹ کو جاندار بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ویسے ہم بھی وقتاً فوقتاً اس پوسٹ کو اپ ڈیٹ کرتے رہیں گے۔
مئ 3، 2007
جن ساتھیوں نے اپنی یاداشتوں کو تازہ کرکے نعرے اپنے تبصروں میں رقم کئے ہیں، ان کا شکریہ۔ اس پوسٹ کو ہم چند روز کیلیے ایسے ہی رکھ چھوڑتے ہیں تاکہ باقی ساتھی بھی اپنا اپنا حصہ اس میں ڈال سکیں۔ اس کے بعد ہمارا پروگرام ہے کہ اس پوسٹ کو ساتھیوں کے نعروں کے اضافے کیساتھ دوبارہ مرتب کریں گے۔
آج چھ ستمبر 2006 کو وکلاء نے مشرف حکومت خاتمے کی تحریک شروع کی ہے۔ اس میں ایک نعرہ یہ لگایا گیا ہے۔ “مک گیا تیرا شو مشرف، گو مشرف گو”
دس ستمبر 2007 کو میاں نواز کی واپسی اور دوبارہ جلاوطنی پر یہ نعرہ لگایا گیا۔ ” گوالمنڈی کی ریت ہے، میاں نواز کی جیت ہے”۔
پی پی پی کے نعرے “بینظیر آئی ہے، انقلاب لائی ہے” “جتوئی کھر، دربدر” “زندہ ہے بھٹو زندہ ہے”” بھٹو فیملی ہیرو ہیرو باقی سارے زیرو زیرو”۔
پندرہ نومبر 2007 کو عمران خان کیساتھ جمیعت کی بدسلوکی کيخلاف اگلے دن طلبا نے احتجاجی جلوس نکالا جس کا یہ نعرہ بہت مقبول ہوا۔ “قاضی نے غنڈے پالے، جمیعت والے، جمیعت والے”۔
اٹھارہ فروری کے انتخابات کی مہم الیکڑانک میڈیا پر بھی لڑی جارہی ہے۔
سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کا مندرجہ ذیل اشتہار ہر وقت کسی نہ کسی چینل پر دیکھا جا سکتا ہے:
خوشحالی، ہریالی ہور وِی لے کے آواں گے
ہر قیمت تے ملک نو اَگّے لےکے جاواں گے
لادے، مُہراں سائیکل تے۔۔۔
پی ایم ایل ن کی قیادت بھی تشہیر کے اِس پہلو سے غافل نہیں ہے۔اُنہوں نے دستاویزی پروگرام اور اشتہار بنوائے ہیں جو انتخابی مہم میں بھرپور انداز میں استعمال ہو رہے ہیں، جیسے:
میاں ہے ساڈا شیر شیر
ووٹاں دے لونے، ڈھیر ڈھیر
اَج ڈھول وَجا کے سب نوں کہنا ہے
بیلیو، مِیاں نے آنا اِس بار
دُکھ ونڈناں اے گھر گھر
ہُن دُکھ نہ کسے دا، اِک وِی رہنا اے
سوگ کے ماحول میں پیپلز پارٹی کی طرف سے الیکٹرانک میڈیا پر جونغمہ چل رہا تھا،وہ ایک نمایاں نوعیت کا ہے:
بیٹی ہوں ذوالفقار کی، نام ہے میرا بے نظیر
بینظیر کی شہادت سے قبل پنجاب میں یہ بولی بہت مشہور ہوئی
ظلم دیاں دیواراں توڑن [ظلم کی دیواریں توڑنے]
مظلوماں دے رشتے جوڑن [مظلوموں کے رشتے جوڑنے]
دکھ دے دریاواں توں گزر کے [دکھ کے دریاؤں سے گزر کر]
اپنی جان تلی تے دھر کے [اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر]
بھٹو دی بیٹی آئی جے [بھٹو دی بیٹی آئی ہے]
اودے تیراں دھم مچائی جے [اس کے تیروں نے دھوم مچائی ہے]
تیرہ جون 2008 کو وکلا کے لانگ مارچ اور بعد میں جلسے میں مندرجہ ذیل نعرے لگے
گو مشرف گو
اب گندے کپڑے دھو
ہم ملک بچانے آئے ہیں
آؤ ہمارے ساتھ چلو
وی وانٹ ججز
ناٹ ڈوگر
ڈوگرہ راج
نامنظور
ظالم ڈر کر بھاگ رہا ہے
پکڑو پکڑو بھاگ رہا ہے
پڑاؤ ہو گا
ضرورت پڑی تو گھیراؤ ہو گا
اگست 2008
پی پی پی کے جلسے میں نیا نعرہ لگایا گیا
روٹي کپڑا نہ گھر چاہیے، بینظیر کے قاتلوں کا سر چاہیے
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلیے مظاہرے میں مندرجہ ذیل نعرہ سننے کو ملا
ڈاکٹر عافیہ ہم شرمندہ ہیں
آپ کے مجرم زندہ ہیں
جلوس کا ہراول ٹرک جس پر سپیکر نصب تھے، آئی ایس ایف اور تحریک انصاف کے نرغے میں تھا اور وہاں سے چیف جسٹس کے حق میں نعرے بازی کی جارہی تھی، “چیف تیرے جانثار۔۔۔بے شمار بے شمار” اب کسی “انصافی بھائی” کو شرارت سوجھی اور اس نے 2 نعرے چیف جسٹس کے لگوا کر “عمران تیرے جانثار۔۔۔ ” لگوانا شروع کردیا ۔ چونکہ پہلے 2 نعرے چیف کے متعلق ہوتے تھے اور تیسرا عمران خان کے متعلق تو اسے بھی اسی کھاتے میں “بے شمار، بے شمار” کا جواب مل جاتا۔ اور تحریک انصاف والے خوش ہوجاتے۔ جمعیت کے افراد بھی کچھ دیر تو چیف صاحب کے دھوکے اور جلوس کی مستی میں نعروں کا جواب دیتے رہے لیکن جیسے ہی انہیں معلوم ہوا کہ ان کیساتھ تو “ہتھ” ہوگیا ہےتو بہت تلملائے۔ آخر دو، تین “جانباز” قسم کے “ساتھی بھائیوں” نے ٹرک پر کمانڈو ایکشن کیا اور مائک والے کے پاس پہنچ گئے۔ اب جیسے ہی چیف جسٹس کے نعروں کے بعد نعرہ بلند ہوا “عمران تیرے جانثار۔۔۔۔” تو ساتھ ہی مائیک پر زوردار آواز گونجی “سارے بیمار، سارے بیمار” ۔ اس کارروائی سے پورا جلوس کشت زعفران بن گیا اور انصافی بھائی کھسیانے ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔
تو جناب کیا اب بھی آپ سمجھتے ہیں کہ نعرہ بازی کیلئے جوش کیساتھ ہوش کی ضرورت نہیں؟
کون بچائے گا پاکستان، عمران خان، عمران خان
صاف چلی شفاف چلی تحریکِ انصاف چلی
30 users commented in " نعرے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackایک سب سے اہم نعرہ تو آپ بھول ہی گئے یہ بڑا ہی عمومی نعرہ ہے ۔۔ نعرہ —– ، جیے ———–
میں نے کیونکہ اپنی تقریبا پوری زندگی کراچی میں ہی گزاری ہے چناچہ میں جن نعروں سے زیادہ واقف ہوں ان میں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے نعرے ہی شامل ہیں ۔۔ افسوس اس بات کا ہے کے تمام نعرے نعرے ہی رہ گئے۔۔
ایم کیو ایم کے ابتدائی دنوں میں مہاجر قومیت پر زیادہ زور تھا چناچہ نعرے کچھ یوں ہوا کرتے تھے۔۔
1۔ اسمبلی کے چاروں طرف ۔۔ حق پرست حق پرست
2۔ نعرہ نعرہ نعرہ مہاجر۔۔ جیے جیے جیے مہاجر
3۔ مہاجروں کے دل کا چین ۔۔ الطاف حسین حسین
4۔ میں مہاجر میری روح مہاجر ۔۔ جب مرجاؤں تو قبر پہ لکھنا جیے مہاجر
5۔ فلاں ٹھاہ، فلاں ٹھاہ ، فلاں ٹھاہ (کئی ایک واقعی ٹھاہ ہوگئے)
پھر جب سے حقیقی وجود میں آئی اور متحدہ کی بنیاد پڑی تو کچھ نعرے حقیقائزڈ کرلیے گئے اور متحدہ کے نعرے الطاف حسین کے گرد محدود ہوگئے۔۔ جیسے
1۔ ہم رہیں نہ رہیں ہمارے بعد۔۔ الطاف الطاف
2۔ ہم کو منزل نہیں رہنما چاہیے۔۔
3۔ جو قائد کا غدار ہے ۔۔ وہ موت کا حقدار ہے۔۔
اسکو حقیقی نے کچھ اسطرح کہا
1۔ جو قوم کا غدار ہے ۔۔ وہ لندن فرار ہے۔
جماعت اسلامی کے نعرے مجھے سب سے مضحکہ خیز لگتے ہیں یعنی اپنی اوقات سے انتہائی بڑھ کر جیسے
1۔ روس نے بازی ہاری ہے ۔۔ اب امریکہ کی باری ہے
2۔ اور انکے نعرہ تکبیر کا ایک الگ انداز ہے۔۔
جو بات تمام نعروں میں مشترکہ ملتی ہے وہ یہ کے سوائے عوام کو گمراہ کرنے کے اور کچھ نہیں۔۔
السلام علیکم،۔
کچھ نعرے جو سکول میں سنا کرتے تھے:-
پاکستان کا مطلب کیا – مارشل لا پر مارشل لا
چلو چلو نشتر پارک چلو۔
جتے گا و
السلام علیکم،۔
کچھ نعرے جو سکول میں سنا کرتے تھے:-
پاکستان کا مطلب کیا – مارشل لا پر مارشل لا
چلو چلو نشتر پارک چلو۔
جتے گا وٗی جتے گا ۔ ساڈا لوٹا جتے گا
تیرا بھأی میرا بھأی ۔ الطاف بھأی الطاف بھأی
میاں دے نعرے وجن گے
نواز شریف اور بینظیر کے کچھ اور نعرے بھی تھے جن کا لکھنا شایر موزوں نہیں ہے۔
ایوب خان کو چھاچھی اسلئے کہتے تھے کہ وہ خان پور [ہری پور] کا رہنے والا تھا جو علاقہ چھچھ میں شامل ہے ۔
ایک عام اور اہم نعرہ جو ذوالفقار علی بھٹو کے حامیوں نے ایجاد کیا تھا وہ آپ بھول گئے ۔
گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو ۔
ایک اور نعرہ جو دوست بھول گئے اور موجودہ دور کا بہترین نعرہ ہے
تیرا پاکستان ہے نہ میرا پاکستان ہے
یہ جسکا پاکستان وہ صدر پاکستان ہے
1977 کے انتخابات میں بہت زبردست نعرے تھے جن میں پنڈی میں لاری اڈے کو پیر ودھائی شفٹ کیا گیا تھا تو اسے بیس بنا کر کچھ یوں نعرے بنے تھے
بھٹو ساڈا بھائی اے ، اڈہ پیر ودھائی اے
اور مخالفوں نے اسے کچھ یوں کہا
بھٹو ساڈا نائی اے ، اڈا پیر ودھائی اے
اسی زمانے کے یہ نعرے بھی شاید کسی کو یاد ہوں
ہَل ہمارا دوست ہے ، تلوار ہماری دشمن ہے
یاد رہے پیپلز پارٹی کا نشان تلوار اور مخالفوں کا نشان ہل تھا
اور ہاں تحریک پاکستان کے حوالے سے کچھ یاد آیا ، ایک ڈاکو منٹری کنیڈا ٹی وی نے بنائی تھی ، جو بہت مقبول ہوئی تھی ، اسکے آرکائیو میں ایک بہت زبردست تصویر تھی دیوار پر لکھا تھا
پاکستان ۔ ۔ ۔ یا موت
اور ایک دوسرا نعرہ جو مقبول تھا
بٹ کے رہے گا ہندوستان ، بن کہ رہے گا پاکستان ۔ ۔
جناب سب نعرہ سامنے آگئے مگر چند نعرہ جع آج کل وکلاء کی زبان پر ہیں وہ تو آپ نے لکھے ہی نہیں!!! جیسے۔۔۔
کالا کوٹ کالی ٹائی
مشرف تیری شامت آئی
پھر چونکہ وہ وکہ جو (بار میں یاد رہے ہر سال الیکشن ہوتے ہیں بار میں) اپوزیشن میں ہیں یا حکمران ہیں اس تحریک میں ایک ہیں اس لئے ایک نعرہ یہ ہے!!!
unity unity
victory victory
اور
وکلاء اتحاد
زندہ باد
اور
سندھی میں
مشرف سان جھگڑو آ
عدلیہ جی آزادی لائن
جمہوریت جی بحالی لائن
اور بھی کئی ہیں!!! جو کسی حد تک مجھے پسند نہیں!!!
آپ کے لکهے نعروں میں ایک
ساڈی قوم دیاں موجاں ای موجاں
جدهر ویکهو فوجاں ای فوجاں
یه نعره پنجابی کے مشہور عوامی شاعر
استاد دامن کی کسی نظم کا ایک شعر هے ـ
دوسرا
یه تیراپاکستان ہے نه میرا پاکستان ہے
یه اس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے
یه شعر جناب حبیب جالب صاحب کا ہے
لیاقت علی خان صاحب کے دوره امریکه پر استاد دامن نے لکها تها
دوره وی پیندا اے تے امریکه دا پیندا اے
بیگم کی کیندی اے تے غراره کی کیندا اے
ـ
بهٹو کے متعلق کی کری جانا ایں اوے کی کری جاناایں
اور ضیاء کے متعلق لکها اب مجهے یاد نہیں ارها
لیکن کچھ اس طرح تها که
فوج نے عینک کی طرح قوم کی ناک پر بیٹھ کر قوم کے کان پکڑ ليے هیں ـ
اُستاد دامن کا شعر اس وقت کا جب بھٹو شملہ معاہدہ کے چک میں تھا یہ ہے
کی کری جا ریاں اے کی کری جا ریاں
کدی دِلی تے کدی شملے چلا جا ریاں
اُتے پا کے کھیس تھلوں دری کھِچی جا ریاں
یہ آخری مصرع ذرا عملی طور پر سوچئے کہ اُستاد دامن کتنی بڑی بات کہہ گیا ۔ استاد دامن کے بھٹو کے متعلق ایک اور نظم لکھنے پر پولیس نے اسے گرفتار کر کے اتنا تشدد کیا کہ پھر وہ چارپائی سے نہ اُٹھ سکا اور اسی کے نتیجہ میں مر گیا اور لاہور گوجرانوالہ کے طلباء اپنے ایک محبوب شاعر سے محروم ہو گئے ۔
ایک اور الطافی نعرہ
الطاف بگھوڑا
لندن کو دوڑا
الطاف کے لندن سدھارنے پر حقیقی مہاجر قومی موومنٹ نے تخلیق کیا۔
پھر یہ بھی
قوم ہے مشکل میں اور مشکل کشا انگلینڈ میں۔
تسلیمات،
حضرات و مستورات اب تک کی ساری زندگی کراچی میں ہی گزری ہے اور جب سے ہوش سنبھالا ہے تو متحدہ کی سیاست سے ہی وابستہ رہے اس لیے یہ کراچی کے ہی نعرے یاد ہیں ہمیں۔
1992 کے کراچی آپریشن کے دوران کراچی کی در و دیوار پر ایک نعرہ کافی لکھا دیکھا گیا وہ تھا
“71 کا بھگوڑا ۔۔۔ کراچی فتح کرنے دوڑا“
“زندہ ہے مہاجر زندہ ہے گولی بھی کھا کہ زندہ ہے، جیلوں میں جا کہ زندہ ہے“
“سب منزلیں سب راستے اے قائد تیرے واسطے“
“چریا ہے مہاجر چریا ہے الطاف کے پیچھے چریا ہے“
1988 کے قومی اور صوبائی حکومت کے الیکشن میں متحدہ کا ایک نعرہ کافی مقبول ہوا تھا۔
“تمام گندگی کو کر کے ختم ۔۔۔ لگاؤ تالا اُڑاؤ پتنگ“
یاد رہے کے قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے متحدہ کے امیدواروں کو پتنگ کا نشان ملا تھا اور صوبائی اسمبلی کے لیے تالے کا
اسی طرح1990 کے الیکشن میں جماعت نے 9 جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک اتحاد بنایا تھا اور اُس اتحاد کے جھنڈے میں 9 ستارے بنے ہوئے تھے اور انتخابی نشان سائیکل تھا ان کا بھی ایک نعرہ کافی مقبول ہوا تھا۔
“نو ستارے سائیکل نشان ۔۔۔ جیوے جیوے پاکستان“
ایک نعرہ تو میں بھول گیا جو اکثر قائد تحریک جلسے میں اسٹیج سع لگواتے تھے۔۔
وفا کرو گے ۔۔۔ وفا کریں گے
جفا کرو گے ۔۔۔ جفا کریں گے
دغا کرو گے ۔۔۔ دغا کریں گے
ہم آدمی ہیں تمھارے جیسے
۔
۔
۔
۔
جو تم کرو گے ۔۔۔ وہ ہم کریں گے
جاگ پنجابی جاگ
تیری پگ نوں لگ گی اگ
تو سوتا تے غیراں جاگ دے
تیراہوندا ہے خانہ خراب
Dear mr.ajmal chach is an area located in tehsil Hazro of district Attock.Hazro city can be supposed its capital.khan pur is not in chach. but both khan pur and chuch areas are closed to each other ,may be this closure caused “ayoba chachi hye hye”
ایک نعرہ جو ایک دیہاتی نے سنایا کچھ یوں تھا:
کراچی کے فسادات پر احتجاجی ریلی میں کئی نعےر سنے گئے۔
وردی وردی، دھشت گردی
چیف تیرے جانثار، بے شمار بے شمار
کل سینیٹ کا اجلاس شروع ہوتے ہی حزب اختلاف نے اودھم مچا دیا اور نعرے لگانے شروع کردیے۔ ان کا ایک نعرہ یہ تھا
جنرل کرنل کی سرکار
نہیں چلے گی، نہیں چلے گی
اس سے ہمیں یاد آیا کسی پروگرام میںکسی نے بڑے مزے کی پھبتی کسی تھی،
پاکستان کے دو ہی بڑے مسائل ہیں
ایک میجر مسئلہ اور ایک جنرل مسئلہ
یہاں میجر اور جنرل کے الفاظ کو عہدے اور الفاظ کی تکرار میں خوب استعمال کیا گیا ہے
ایک نعرہ جو کراچی کی دیواروںپر یا عمومن جلسوںمیںلگایا جاتا ھے وہ یہ ہے کہ
اب راج کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔متحدہ
میںبھی بولوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔متحدہ
تم بھی بولو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔متحدہ
سندھی بھی بولے ۔۔۔۔۔۔۔متحدہ
پنجابی بولے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔متحدہ
ذرا زور سے بولو۔۔۔۔۔۔متحدہ
حق کی کھلی کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الطاف لطاف
ہر سوال کا جواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الطاف الطاف
نہ وڈیرہ نہ نواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الطاف الطاف
ہر ظلم کے خلاف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الطاف الطاف
سب سے کہ دو صاف صاف ۔۔۔الطاف الطاف
ہم نہ ہوںہمارے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الطاف الطاف
جماعتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھاہ (جماعت اسلامی)
یہ ملا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھاہ (مذہبی رہنما)
کہ قاضی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھاہ (قاضی حسین احمد)
یہ فضلو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھاہ (مولانا فضل الرحمن)
کہ نوارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھاہ (نورانی)
غفورا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھاہ پروفیسر غفوراحمد)
ایک مشہور نعرہ جو قاضی سے متعلق تھا
الیکشن سے پہلے
ظالمو قاضی آ رہا ہے
الیکشن کے بعد
ظالمو قاضی جا رہا ہے
ایک حسبِ حال نعرہ
کھال اتارو – ملک سنوارو
روزگار امن امان
مانگ رھا ہے ہر انسان
شھادت ہماری میراث ہے
وطن کی مٹی گواہ رہنا
تاریخ و واقعات اور ریکارڈ کی درستگی کی خاطر کچھ حقائق عرض کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نےچوہدری نیک عالم گوندل مرحوم کے علاقے کا مکین ہونے کا دعواہ کیا ہے۔ مگر حیرت ہے کہ جس تجاہلِ عارفانہ سے اور جس انداز میں آپ نے چوہدری نیک عالم مرحوم کا ذکر کیا ہے اس لگتا ہے آپ چوہدری نیک عالم مرحوم کے بارے میں واقعی نہیں جانتے۔ چوہدری نیک عالم گوندل مرحوم کھاریاں سے تین کلو میٹر مغرب پہ واقع گاؤں عالم پورگوندلاں میں میاں کرم الہٰی گوندل مرحوم کے گھر 1901 میں پیدا ہوئے۔ آپکے والد چلچلاتی گرمیوں میں بھی ننگی کمر ہل چلاتے ہوئے قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے۔ میاں کرم الہٰی مرحوم نےاپنے وقت میں اپنے گاؤں کےاکثر و بیشتر بزرگوں کو قرآنِ کریم کی تعلیم دی اور اس وجہ سے چوہدری نیک عالم نے بھی درویش صفت طبیعت پائی۔ اور اپنی ہر کلاس میں خداد لیاقت اور محنت سے وظیفہ حاصل کیا اور اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کیئے۔ اور اعزازی نمبروں کیساتھ ایگرکلچر میں ایم ایس سی کیا اور گولڈ میڈلسٹ قرار دیے ۔ ایگریکلچر ڈپارٹمنت میں اسسٹنٹ ڈائرکٹر مقرر ہوئے۔ بعد ازاں جائیداد کی خریدوفروخت کا کاروبارشروع کیا۔ جو انکا اصل ذریعہِ آمدنی تھا۔چوہدری نیک عالم گوندل مرحوم کا ایک کارنامہ 1951ء میں انتھک جہدوجہد سے ُمورثی، نامی قانون پاس کروانا بھی ہے جس قانون کے تحت مزارعوں، کھیت مزدوروں اور آجیروں وغیرہ کا زمین خریدنے اورزمین کا حقِ ملکیت تسلیم کیا گیا۔ چوہدری نیک عالم گوندل مرحوم نے اپنی رہائش ھمیشہ کھاریاں رکھی اور کھاریاں تحصیل اور گردونواح کے علاقوں کی غریبی و پس ماندگی دور کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ چوہدری نیک عالم گوندل مرحوم کے اس کردار کی گواہی پورا علاقہ دیتا ہے ۔چوہدری نیک عالم مرحوم نے بھٹو دور میں لوگوں کو دوبئی بیجھنے کا ُکاروبار، قطعی طور پر نہیں کیا۔ بلکہ ایوب دور ِحکومت میں اُس اعلٰی تعلیم یافتہ اور درویش صفت انسان نے اپنے علاقے کے کچھ جاہل لوگوں کے برعکس، جٹ اور گوجر کی تمیز کیے بغیر اور تعصب سے پاک ہو کر، اپنے لوگوں کی خدمت کی اور لوگوں کو بہ منت کنیڈ ا، انگلینڈ ، ناروے ، ڈنمارک ، اور مغربی یوروپ بجھوانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اور بسا اوقات بہت سے لوگوں کے اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کیے جو لوگوں نے یوروپ پہنچنے کے بعد محنت سے کما کر واپس ادا کیے۔ اور آج روپے پیسے کی فروانی کیے باعث اگر پاکستان کی سب سے امیر اور مہنگی تحصیل کا اعزاز کھاریاں کو حاصل ہے اور بغیر کسی حیل و حجت کے پاکستان کو وصول ہونے والا گرانقدر غیر ملکی زرِمبادلہ کے بہت بڑے حصے کا کھاریاں میں گردش کرتا ہے تو ا سکی وجہ بھی کھاریاں اورگردونواح میں چوہدری نیک عالم مرحوم کی خدمات ہیں۔ اور ان سب باتوں کی شہادت چوہدری نیک عالم مرحوم کے علاقے یعنی کھاریاں تحصیل کے لوگ دیتے ہیں۔ اور کنیڈا ، انگلینڈ ، ناروے ، ڈنمارک ، اور مغربی یوروپ میں مقیم کھاریاں تحصیل اور ضلع گجرات بشمول منڈی بہاؤالدین ،آزاد کشمیر کے کچھ علاقوں اور جہلم کے لوگ اس بات کے زندہ گواہ ہیں ۔ چوہدری نیک عالم گوندل مرحوم کی دختر نیک اختر نے بھی محکمہ تعلیم کے اعلٰی عہدیدار ہونے کے ناطے کھاریاں کی خدمت کی ہے ۔ کھاریاں کی مشہور ویب سائٹ ُاپنا کھاریاں۔کام apnakharian.com نےکھاریاں کی مشہورومعروف شخصیات میں سب سے پہلا مقام چوہدری نیک عالم مرحوم کی خدمات کو دیا ہے اور چوہدری نیک عالم گوندل مرحوم کے بارے میں ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔
ُ Ch. Nek Alam S/O Ch. Karam Elahi played a very very important role in the development of Kharian City, what is Kharian today is just because of his efforts and struggle. His name tells us that what kind of man he was, we should rather call him ” Nek ” to ” Alam ” (kind to world). At that time he sent unemployed people of Kharian in Europe, specially in Norway, Denmark and England and the result is that now Kharian is the RICHEST Tehsil of Pakistan. He loved Kharian heartedly. ،
مزید معلومات کے لئیے یہ لنک بیجھ رہا ہوں ۔
http://apnakharian.com/html/nek_alam.html
اور یہ نیک طینت اور درویش مرد مرحوم چوہدری نیک عالم گوندل 27 دسمبر 1982 کو اللہ کو پیارے ہوگئے ۔
زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے۔
انااللہ و انا الیہ راجعون ۃ ۔
آپ نے چونکہ اپنی تحریر میں پاکستان کے سابقہ صدر چوہدری فضل الہٰی مرحوم کا ذکر بھی کیا ہے کہ ُجب آدھی رات کو پولیس نے ایک شخص کو چادر میں منہ چھپائے نعرے لکھتے ہوئے دیکھا تو اسے پکڑ لیا۔ جب چادر اس کے چہرے سے اتاری گئ تو وہ خود چوہدری فضل الٰہی تھے۔، پتہ نہیں ان باتوں سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کہ آیا چوہدری فضل الہٰی مرحوم کو 14 اگست 1973 تا 16ستمبر 1978 تک زبردستی پاکستان کا صدر بنا دیا گیا تھا۔؟ جبکہ پاکستان کے ایک اور سابق صدر جناب جسٹس رفیق تارڑ کے بارے میں تو اسطرع کا لطیفہ جچتا ہے مگر چوہدری فضل الہٰی کے بارے میں ایسا لطیفہ؟ اون ہونہہ بات دل کو نہیں لگتی۔ جبکہ سب جانتے ہیں کہ چوہدری فضل الہٰی مرحوم کون تھے اور کس طرع کے صدر تھے۔ اور پاکستان اور حتٰی کے اپنے علاقے تک کے لئیے انکی خدمات صفر ہیں۔ اور ان سے منصبِ صدارت سے آزادی کی ایسی خواہش ناممکنات سے تھی بلکہ اگر مرحوم حیات ہوتے تو منصبِ صدارت کی ویسی ہی نوکری کرنے کے لئیے کئی مرتبہ غلامی کو تیار ہوتے۔ انکا کھاریاں کے حوالے سے واحد ُکارنامہ، کھاریاں سٹی ریلوے اسٹیشن کو ُ ڈی ویلیو، کروا کے چند کلومیٹر دور اپنے آبائی گاؤں مرالہ لے جانا ہے۔ اور تب سے آج تک کوئی قابلِ ذکر ٹرین کھاریاں سٹی اسٹیشن پہ نہیں رکتی اور کھاریاں کے لوگ صدر مرحوم سے شاکی ہیں۔ پاکستانی تاریخ کے اسکالر بخوبی جانتے ہیں کہ فروری سنہ انیس سو چوہتر میں لاہور کی اسلامی کانفرنس کے سجائے گئے میلے میں سابقہ مشرقی پاکستان کو چوہدری فضل الہٰی کے دستخطوں سے بنگلہ دیش تسلیم کرکے پاکستان کومشرقی پاکستان کے بارے میں اپنے ہر حق سے فارغ کر دیا گیا۔ جب بھی سابقہ مشرقی پاکستان کا ذکر آئے گا۔ پاکستان کے پانچویں صدر چوہدری فضل الہٰی مرحوم کے زیرِ دستخطی بدقسمتی سے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش تسلیم کرنے کا ذکر بھی آئے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کھاریاں کے دونوں چوہدریوں کے بارے میں کسی حد تک ریکارڈ کی درستگی کے لئیے اور قارئین اکرام کی معلومات کے لئیے یہ کافی ہے ، میرا مقصد آپکی معلومات کو چیلنج کرنا نہیں بلکہ صرف واقعات کو درست انداز میں بیان کرنا ہے۔
فقط والسلام
جاوید گوندل – بارسیلونآ، اسپین
میں نے آج پہلی بار یہ تحریر پڑھی ہے اور کچھ تبصرے بھی ۔ میرے علم کے مطابق ہمارے ملک ہی میں نہیں ہمارے ملک جیسے اور ملکوں میں بھی بہت کم نعرے عوام بناتے ہیں باقی نعرے کوئی اور بنا کر رائج کرتا ہے ۔ یہی صورتِ حال سرکاری لوگوں یا اداروں کے متعلق لطیفوں یا مضحکہ خیز کہانیوں کی ہے جیسی آپ نے چوہدری فضل الٰہی کے متعلق لکھی ہے ۔ ان سب کی حقیقت سوائے اس کے کچھ نہیں ہوتی کہ غیرملک اس ملک کا ماحول پراگندہ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ عمل پاکستان بننے سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا ۔
چھچھ ایک علاقہ ہے جہاں کے لوگوں کو چھاچھی کہا جاتا ہے ۔
محترم!
آپ نےچوہدری نیک عالم گوندل مرحوم کے بارے میں میرے تبصرے کو ُُکیسے کیسے لوگ، میں تقریباً من و عن چھاپ کر جو عزت افزائی بخشی ہے اس کے لئیے میں آپکا بیحد مشکُور ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری نیک عالم گوندل مرحوم کے بارے میں حقائق کا علم ہونے کی وجہ سے مجھ پہ ایک طرع کا قرض تھا جو میں نے دیانتداری سے ادا کرنے کی ادنٰی سی کوشش کی ہے –
میں نے اپنی اصل تحریر میں مورثی نامی قانون کے حوالے سے مزارعوں، کھیت مزدوروں اور آجیروں کا ذکر کیا ہے جو آپ نے آجروں لکھ ڈالا ہے جبکہ اصل لفظ آجیروں پڑھا جائے ۔ جنوبی پنجاب یعنی سرائیکی رینج میں آجیرہ، مزارع یا ہاری کے لئیے لکھا اور بولا جاتا ہے جبکہ آجر مالک کے زِمرے میں آتا ہے لہٰذاہ ازراہِ کرم تصیح فرما لیں۔
جہاں تک تعرے کا تعلق ہے تو اصل نعرہ کچھ یوں تھا ۔
نیک عالم دی نیک ھوا
تے کنجی نوں پرچی پا
ترجمہ: نیک عالم دی نیک ھوا ہے اور آپ پرچی (ووٹ) کُنجی (چابی) کو ڈالیں۔:
اور ایک نعرہ یہ بھی تھا جو ایک شعر کی صورت میں تھا
ہر مشکل دی کنجی یارو ہتھ مرداں دے آئی
تے جے مرد چا دعا کرن تے مشکل نا رہندی کائی
ترجمہ: ہر مشکل کو حل کرنے والی چابی مردوں کے ہاتھ آئی ہے اور اسلئیے اگر مرد( یعنی ووٹر حضرات) دعاکریں تو کوئی مشکل ، مشکل نہیں رہے گی
یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ھوگا کہ کنجی( چابی) کا نشان چوہدری نیک عالم گوندل مرحوم کی پارٹی کو الاٹ ہوا تھا اور پارٹی کا نام ُ آل پاکستان بھُک کڈھ پارٹی، تھا بُھک کڈھ پارٹی یعنی بھوک نکالو پارٹی۔ تب کے انتخابات میں پاکستان بھر سے غالباً اسی کے لگ بھگ سیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا تھااور چوہدری نیک عالم گوندل مرحوم کو ایک پولنگ اسٹیشن سے صرف تین ووٹ ملے تو چوہدری نیک عالم گوندل مرحوم پُر مزاح لہجے میں گویا ہوئے کہ ُ ُ ایک ووٹ تو میرا ٹہرا اور ایک میری بیگم کا مگر یہ تیسرے ووٹ کی حماقت کس سے سرزد ہوئی ھوگی“؟۔
خیر اندیش
جاوید گوندل – بآرسیلونا۔ اسپین
نعروں کے حوالے سے آراء مختلف ہو سکتی ہیں لیکن خون جگر گرمانے میں ان کے غیر معمولی کردار سے انکار ممکن نہیں۔
چوہدری شجاعت دی شخصیت دی وی کوئی چودمچودائی ضروری اے
فوج میں بحی تو سارے مزے اور عیاشیاں صرف افیسران کرتے ہیں۔نچلا طبقہ تو بھنگیوں اور جانوروں کی سی زندگی گزار رہاہے۔میس سے لے کر رہائش تک کی ساری سہولیات افیسران کے لئے ہیں جبکہ کلیریکل سٹاف سے لے کر باٹ میں اور ھوالداروں اور صوبیداروں تک تو بیچارے خآنہ بدوشوں اور کمیوں کی طرھ جی رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
فوج آمروں نے ہمیشہ میڈیا کو دبا کے رکھا ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب کوئی مسئلہ ہوتا تھا تو نعرے لگائے جاتے تھے۔ لیکن خبر بنتی تھی کہ جلوس نکلا اور انہوں نے“ نعرے بازی“ کی۔
“بازی“ لفظ بہت ذیادہ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا تھا۔ جیسے پتنگ بازی، کبوتر بازی، اور لونڈے بازی وغیرہ۔
آج بھی تمام ٹی وی چینلز پر یہی سنائی جاتی ہے کہ ‘جلوس نکلا اور انہوں نے“ نعرے بازی“ کی۔‘
please make a correction school may aleef nai laga i think data entry mistake
Leave A Reply