sajeelayjernaillo2.jpg

نعروں کے بغیر ملکی سیاست پھیکی پھیکی لگتی ہے۔ تحریک پاکستان کے نعرے آج تک مقبول بلکہ ضرب المثل ہیں، وہ کچھ اسطرح تھے۔

“پاکستان کا مطلب کیا’ لا الہ الا اللہ”

“لے کے رہيں گے پاکستان”

“جب تک پاکستان رہے گا، قائد اعظم تیرا نام رہے گا”

جب ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو سیاسی کارکنوں نے سکولوں پر یلغار کردی۔ وہ سکول پہنچ کر انہیں بند کرواتے اور طالبعلموں کو ساتھ ملا کر جلوس نکالنا شروع کردیتے۔ اسی دور میں ہم نے جو سب سے پہلا نعرہ لوگوں کیساتھ ملکر لگایا وہ تھا

“ایوبا چھاچھی ہائے ہائے”

چھاچھی کا مطلب ہم آج تک نہیں سمجھ سکے۔ ہوسکتا ہے یہ صدر ایوب کی ذات ہو یا پھر ان کی کوئی اور خوبی۔

ہماری یاداشت نعروں کے معاملے میں اتنی اچھی نہیں رہی۔ ہمیں کچھ کامن سے نعرے یاد ہیں۔ جو ہرکوئی استعمال کرتا رہا ہے۔ مثلاً

“جب تک پاکستان رہے گا، ——–تیرا نام رہے گا”

“لاٹھی گولی کی سرکار، نہیں چلے گی نہیں چلے گی”

“——– ساڈا شیر اے، باقی ہیر پھیر اے”

مخالف اس نعرے کی گرہ کچھ اس طرح لگایا کرتے تھے،” مگر پوشلوں [دم} بغیر اے”

“ظالماں دے ظلم دی اخیر ہونی، ٹھاہ

“ظالمو جواب دو، خون کا حساب دو”

“ظلم کے ضابطے، ہم نہیں مانتے ہم نہیں مانتے”

“ایسے دستور کو، صبح بےنور کو، میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا”

“گو —— گو”

“کشمیر بنے گا، پاکستان”

یونیورسٹیوں کالجوں میں اس طرح کا نعرہ بہت مشہور ہوا کرتا تھا، ہر نعرے کے جواب میں سامعین اس جماعت کا سلوگن پکارا کرتے تھے۔

“ذرا زور سے بولو،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

“ذرا ہوش سے بولو،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

“ذرا جوش سے بولو،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

ہمارے علاقے ميں ایک آدمی ہوتا تھا نیک عالم وہ بھٹو دور میں لوگوں کو دبئ بھیجنے کا کاروبار کیا کرتا تھا۔ پتہ نہیں اسے کیا سوجھی کہ اس نے الیکشن لڑنے کا پروگرام بنا لیا۔ وہ اپنی ویگن میں اپنے چند ورکروں کیساتھ آتا اور جہاں چند لوگ دیکھتا تقریر شروع کردیتا۔ اس کے مخالفین نے اس کا ایک نعرہ بنا رکھا تھا جسے سن کر وہ غصے میں پاگل ہوجاتا اور سپیکر پر ہی گالیاں بکنا شروع کر دیتا۔ نعرہ کچھ اس طرح تھا۔۔

“نیک عالم دی نیک ہوا، پرچی لے کے چلہے[مہذب لفظ] وچ پا”

پرچی اسے کہتے تھے جو ووٹر ووٹ ڈالنےسے پہلے باہر سیاسی جماعت کے ایجینٹ سے لیتا تھا اور جس میں اس کا نام اور ووٹر نمبر لکھا ہوتا تھا۔

چوہدری فضل الٰہی کی شرافت اور بے اختیار صدارت کی وجہ سے ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا تھا۔ حکومت نے دیکھا کہ روز کوئی شخص چوہدری فضل الٰہی کی سرکاری رہائش کی دیوار پر روز یہ نعرے لکھ جاتا تھا۔ ” چوہدری فضل الٰہی کو رہا کرو” پولیس نے ایک رات گھات لگا کر نعرہ لکھنے والے کو پکٹرنے کا پروگرام بنایا۔ جب آدھی رات کو پولیس نے ایک شخص کو چادر میں منہ چھپائے نعرے لکھتے ہوئے دیکھا تو اسے پکڑ لیا۔ جب چادر اس کے چہرے سے اتاری گئ تو وہ خود چوہدری فضل الٰہی تھے۔

نوستاروں کی اسلامی نظام کی تحریک کے بعد جب جنرل ضیاالحق نے آمریت قائم کی تو یہ نعرہ بھی سننے کو ملا۔

“نہ آیا ہل نہ آئی تلوار

آگئی موچھاں والی سرکار”

اس وقت جمہوری اتحاد کا نشان ہل تھا اور پیپلز پارٹی کا تلوار۔ شروع ميں ضیاالحق کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں۔ جونہی جنرل ضیا کا پتلا منہ بڑا ہوتا گیا اس کی مونجھیں چھوٹی ہوتی گئیں۔

آئی جی آئی کی تحریک میں بھٹو کے بارے میں یہ نعرہ بہت مشہور ہوا۔

گنجے کے سر پر ہل چلے گا

گنجہ سر کے بل چلے گا

بینظیر اور نواز شریف کی چپقلش کے دوران ایک اور ہتک آمیز نعرہ اس وقت سننے کو ملا۔ اب ہمیں یہ نہیں معلوم کہ یہ کس پارٹی نے لگایا تھا۔ “لچی اے لفنگی اے۔ گنجے نالوں چنگی اے”۔ ہوسکتا ہے یہ نعرہ پی پی پی کا ہو مگر اس میں بینظیر کی تذلیل بھی عیاں ہے۔

ابھی جسٹس افتخار کی تحریک میں کئی نعرے سامنے آئے ہیں۔ اس تحریک میں پہلی بار فوج کیخلاف بھی نعرے لگائے گئے ہیں۔ ہمیں پوری طرح معلوم نہیں کہ “ناپاک فوج” کا نعرہ کیسے لگا مگر چوہدری شجاعت کو اس نعرے کی بنا پر نعرہ لگانے والے کو گولی مارنے کی تجویز پیش کرنی پڑی جس کا اقرار انہوں نے اسمبلی کے پلیٹ فارم پر بھی کیا۔

ابھی آج کےجسٹس افتخار کی بحالی کے احتجاج میں یہ نعرے سننے کو ملے۔

“عدلیہ کو آزاد کرو”

“آئین کا تارا مسیح، شریف الدین شریف الدین”

“مشرف تیرے ضابطے ہم نہیں مانتے، امریکہ سے تیرے رابطے ہم نہیں مانتے”

“عدلیہ کی آزدی تک، جنگ رہے گی جنگ رہے گی”

جب ملک پر فوجي حکومت کررہا ہو اور اس کا يہ بھي دعويٰ ہو کہ اس نے ملک ميں جمہوريت بحال کررکھي ہے تو پھرعوام فوج کو بھي ايک سياسي پارٹي سمجھنے لگتے ہيں اور اس کے نعرے بھي لگانے لگتے ہيں۔ ایک تازہ نعرہ ہمیں اپنے ساتھی بلاگر “تمیزدار” کی زبانی معلوم ہوا ہے۔ یہ نعرہ ہے جاندار اور کسی پختہ ذہن کی اختراع ہے۔

“پاکستان دیاں موجاں ای موجاں

جتھے ویکھو فوجاں ای فوجاں”

اسي طرح کسي منچلے نے ايک قومي ترانے کي پيروڈي بھي بنا دي ہے۔ اصل ترانہ جو نور جہاں نے گايا تھا وہ کچھ اس طرح تھا

“اے وطن کے سجيلے جوانو

ميرے نغمے تمہارے ليے ہيں”

اور اس کي پيروڈي اس طرح ہے

“اے وطن کے سجيلے جرنيلو

سارے رقبے تمہارے ليے ہيں

کوٹھيوں کے طلبگار ہو تم

پلاٹوں کے پرستار ہو تم

او لالچ کي زندہ مثالو

يہ سودے تمہارے ليے ہيں

اے وطن کے سجيلے ——-“

نوٹ۔ ہم نے ايک نہايت سخت لفظ” ذلالت” کو” لالچ” سے بدل ديا ہے۔

پچھلے دنوں جب ایم کیو ایم پر بحث چھڑی تو ایک یہ نعرہ بھی سننےکو ملا “جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے”

ابھی 26 مئی کے چیف جسٹس کے سپریم کورٹ بار کے خطاب کی تقریب میں یہ نعرے بھی لگائے گئے

“پاکستان کا مطلب کیا؟ چوری، ڈاکے اور اغوا”

“یہ جو غنڈہ گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے”

“کھال اتارو، ملک سنوارو”

اس پوسٹ کو مکمل کرنے کیلیے ہمیں اپنے ساتھیوں اور قارئین کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ امید ہے وہ اپنی یاداشت میں موجود نعروں کو اپنے تبصروں میں لکھ کر اس پوسٹ کو جاندار بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ویسے ہم بھی وقتاً فوقتاً اس پوسٹ کو اپ ڈیٹ کرتے رہیں گے۔

مئ 3، 2007

جن ساتھیوں نے اپنی یاداشتوں کو تازہ کرکے نعرے اپنے تبصروں میں رقم کئے ہیں، ان کا شکریہ۔ اس پوسٹ کو ہم چند روز کیلیے ایسے ہی رکھ چھوڑتے ہیں تاکہ باقی ساتھی بھی اپنا اپنا حصہ اس میں ڈال سکیں۔ اس کے بعد ہمارا پروگرام ہے کہ اس پوسٹ کو ساتھیوں کے نعروں کے اضافے کیساتھ دوبارہ مرتب کریں گے۔

آج چھ ستمبر 2006 کو وکلاء نے مشرف حکومت خاتمے کی تحریک شروع کی ہے۔ اس میں ایک نعرہ یہ لگایا گیا ہے۔ “مک گیا تیرا شو مشرف، گو مشرف گو”

دس ستمبر 2007 کو میاں نواز کی واپسی اور دوبارہ جلاوطنی پر یہ نعرہ لگایا گیا۔ ” گوالمنڈی کی ریت ہے، میاں نواز کی جیت ہے”۔

پی پی پی کے نعرے “بینظیر آئی ہے، انقلاب لائی ہے” “جتوئی کھر، دربدر” “زندہ ہے بھٹو زندہ ہے”” بھٹو فیملی ہیرو ہیرو باقی سارے زیرو زیرو”۔

پندرہ نومبر 2007 کو عمران خان کیساتھ جمیعت کی بدسلوکی کيخلاف اگلے دن طلبا نے احتجاجی جلوس نکالا جس کا یہ نعرہ بہت مقبول ہوا۔ “قاضی نے غنڈے پالے، جمیعت والے، جمیعت والے”۔

اٹھارہ فروری کے انتخابات کی مہم الیکڑانک میڈیا پر بھی لڑی جارہی ہے۔

سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کا مندرجہ ذیل اشتہار ہر وقت کسی نہ کسی چینل پر دیکھا جا سکتا ہے:

 

خوشحالی، ہریالی ہور وِی لے کے آواں گے

ہر قیمت تے ملک نو اَگّے لےکے جاواں گے

لادے، مُہراں سائیکل تے۔۔۔

 

پی ایم ایل ن کی قیادت بھی تشہیر کے اِس پہلو سے غافل نہیں ہے۔اُنہوں نے دستاویزی پروگرام اور اشتہار بنوائے ہیں جو انتخابی مہم میں بھرپور انداز میں استعمال ہو رہے ہیں، جیسے:

 

میاں ہے ساڈا شیر شیر

ووٹاں دے لونے، ڈھیر ڈھیر

اَج ڈھول وَجا کے سب نوں کہنا ہے

بیلیو، مِیاں نے آنا اِس بار

دُکھ ونڈناں اے گھر گھر

ہُن دُکھ نہ کسے دا، اِک وِی رہنا اے

 

سوگ کے ماحول میں پیپلز پارٹی کی طرف سے الیکٹرانک میڈیا پر جونغمہ چل رہا تھا،وہ ایک نمایاں نوعیت کا ہے:

 

بیٹی ہوں ذوالفقار کی، نام ہے میرا بے نظیر

بینظیر کی شہادت سے قبل پنجاب میں یہ بولی بہت مشہور ہوئی

ظلم دیاں دیواراں توڑن [ظلم کی دیواریں توڑنے]

مظلوماں دے رشتے جوڑن [مظلوموں کے رشتے جوڑنے]

دکھ دے دریاواں توں گزر کے [دکھ کے دریاؤں سے گزر کر]

اپنی جان تلی تے دھر کے [اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر]

بھٹو دی بیٹی آئی جے [بھٹو دی بیٹی آئی ہے]

اودے تیراں دھم مچائی جے [اس کے تیروں نے دھوم مچائی ہے]

 

تیرہ جون 2008 کو وکلا کے لانگ مارچ اور بعد میں جلسے میں مندرجہ ذیل نعرے لگے

گو مشرف گو

اب گندے کپڑے دھو

 

ہم ملک بچانے آئے ہیں

آؤ ہمارے ساتھ چلو

 

وی وانٹ ججز

ناٹ ڈوگر

 

ڈوگرہ راج

نامنظور

 

ظالم ڈر کر بھاگ رہا ہے

پکڑو پکڑو بھاگ رہا ہے

 

پڑاؤ ہو گا

ضرورت پڑی تو گھیراؤ ہو گا

اگست 2008

پی پی پی کے جلسے میں نیا نعرہ لگایا گیا

روٹي کپڑا نہ گھر چاہیے، بینظیر کے قاتلوں کا سر چاہیے

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلیے مظاہرے میں مندرجہ ذیل نعرہ سننے کو ملا

ڈاکٹر عافیہ ہم شرمندہ ہیں

آپ کے مجرم زندہ ہیں

 

 

جلوس کا ہراول ٹرک جس پر سپیکر نصب تھے، آئی ایس ایف اور تحریک انصاف کے نرغے میں تھا اور وہاں سے چیف جسٹس کے حق میں نعرے بازی کی جارہی تھی، “چیف تیرے جانثار۔۔۔بے شمار بے شمار” اب کسی “انصافی بھائی” کو شرارت سوجھی اور اس نے 2 نعرے چیف جسٹس کے لگوا کر “عمران تیرے جانثار۔۔۔ ” لگوانا شروع کردیا ۔ چونکہ پہلے 2 نعرے چیف کے متعلق ہوتے تھے اور تیسرا عمران خان کے متعلق تو اسے بھی اسی کھاتے میں “بے شمار، بے شمار” کا جواب مل جاتا۔ اور تحریک انصاف والے خوش ہوجاتے۔ جمعیت کے افراد بھی کچھ دیر تو چیف صاحب کے دھوکے اور جلوس کی مستی میں نعروں کا جواب دیتے رہے لیکن جیسے ہی انہیں معلوم ہوا کہ ان کیساتھ تو “ہتھ” ہوگیا ہےتو بہت تلملائے۔ آخر دو، تین “جانباز” قسم کے “ساتھی بھائیوں” نے ٹرک پر کمانڈو ایکشن کیا اور مائک والے کے پاس پہنچ گئے۔ اب جیسے ہی چیف جسٹس کے نعروں کے بعد نعرہ بلند ہوا “عمران تیرے جانثار۔۔۔۔” تو ساتھ ہی مائیک پر زوردار آواز گونجی “سارے بیمار، سارے بیمار” ۔ اس کارروائی سے پورا جلوس کشت زعفران بن گیا اور انصافی بھائی کھسیانے ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔
تو جناب کیا اب بھی آپ سمجھتے ہیں کہ نعرہ بازی کیلئے جوش کیساتھ ہوش کی ضرورت نہیں؟
کون بچائے گا پاکستان، عمران خان، عمران خان
صاف چلی شفاف چلی تحریکِ انصاف چلی