میاں صاحب نے حکومت بنانے سے پہلے جو وعدے کئے تھے وہ ابھی تک تو پورے نہیں کئے اور لگتا بھی نہیں کہ وہ پورے کر پائیں۔ کیونکہ وعدے پورے کرنے کیلیے آدمی کے پاس شیر جیسا دل ہونا چاہیے لومڑی جیسادماغ ہونا چاہیے اور یہ دونوں چیزیں میاں برادران کے پاس نہیں ہیں بلکہ ابھی تک تو کسی سیاستدان میں نہیں ہیں۔
میاں برادران بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو آصف زرداری نے کیا یعنی لوگوں لوڈشیڈنگ کے عذاب میں تنہا چھوڑ کر خود لندن کی ٹھنڈی ہواؤوں کے مزے لوٹ رہے ہیں بلکہ ذرداری تو اکیلے تھے یہ دو بھائی ہیں یعنی چاروں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔
اگر ہمارا وزیراعظم ملک کیساتھ مخلص ہوتا تو وہ سب سے پہلے ایٹمی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کا بہت بڑا منصوبہ شروع کرتا۔ بھارت اور ایران سے عارضی بنیادوں پر بجلی درآمد کرتا، سرکاری اور عام بزنس مین نادہندہ سے واجبات کی وصولی یقینی بناتا، کنڈے لگانے والوں کیلیے پھانسی کی سزا مقرر کرتا، پرائیویٹ بجلی پیدا کرنے والوں کو تیل کی سپلائی جاری رکھتا اور سب سے بڑی بات یہ کہ تمام مصروفیات چھوڑ کر ہنگامی کیمپ لگا لیتا۔
اگر ہمارا وزیراعظم قوم سے مخلص ہوتا تو اپنے گھر میں بھی اتنی ہی لوڈشیڈنگ کرتا جتنی ایک عام آدمی کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے بلکہ وزیراعظم ہاؤس میں بھی لوڈشینڈنگ ہوتی۔
مگر نہیں ہمارا وزیراعظم صرف بزنس مین ہے وہ عوام کا خادم نہیں اور نہ ہی اس کا بھائی خادم اعلیٰ ہے وگرنہ عابدشیرعلی کے دکھاوے کے چند معرکوں کو مستقل بنیادوں پر ضرور آگے بڑھاتا۔ یہ کیا ہوا ایک دن سپریم کورٹ، وزیراعظم ہاؤس اور دوسرے سرکاری اداروں کی بجلی کاٹ دی اور اس کے بعد پھر وہی اللے تللے۔ وہ لیڈر کبھی قوم کی قسمت نہیں بدل سکتے جو کہتے کچھ ہوں اور کرتے کچھ ہوں۔
مگر سارا قصور ہمارے حکمرانوں کا بھی نہیں ہے۔ آج اگر عوام کا جم غفیر اسلام آباد پر چڑھ دوڑے تو ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ چوبیس گھنٹوں میں ختم ہو جائے گی۔