جنگ اخبار کیمطابق مشہور ترقی پسند شاعر احمد فراز آج امریکہ کے شہر شکاگو کے ایک ہسپتال میں وفات پاگئے۔

جب ہم یہ خبر پڑھنے کے بعد مندرجہ ذیل تحریر لکھ چکے تو بعد میں معلوم ہوا کہ جنگ اخبار نے اپنی اس خبر کی تردید جاری کر دی ہے اور کہا کہ احمد فراز ابھی زندہ ہیں مگر شدید بیمار ہیں۔ جنگ نے یہ خبر سرکاری ٹی وی کی وساطت سے جاری کی تھی۔ کیا بات ہے ہمارے پی ٹی وی کی۔

چلیں اس پوسٹ کو ایسے ہی رہنے دیتے ہیں اور اسے احمد فراز کے نام کرتے ہوئے ان کی صحت یابی کی دعا مانگتے ہیں۔

احمد فراز 14 جنوری 1931 کو نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصلی نام سید احمد شاہ اور تخلص فراز ہے۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ایم اے کیے۔ احمد فراز ترقی پسند مشہور شعرا کی آخری نشانی ہیں۔ وہ فیض احمد فیض سے کافی متاثر ہیں۔

انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان سے سکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے کیا۔ بعد میں پشاور یونیورسٹی میں اردو پڑھاتے رہے۔ 1976 میں اکادمی ادبیات کے بانی ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور چیئرمین کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ بعد میں کئی سالوں تک نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد کے چیئرپرسن بھی رہے۔

ضیاالحق کے دور حکومت میں احمد فراز نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی اور وہ اس دوران تین سال تک برطانیہ، کینیڈا اور یورپ میں قیام پذیر رہے۔جلاوطنی کے دوران انہوں نے اپنی بہترین انقلابی شاعری تخلیق کی۔ ان کی نظم محاصرہ مشہور ترین ہے۔

انہوں نے بیشمار قومی ایوارڈز حاصل کیے۔ ان میں سب سے اہم ہلال امیتاز 2004 میں حاصل کیا جو حکومتی پالیسیوں کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا۔

ان کی شعری تصانیف

تن تنہا، جان جاناں، دردآشوب، نایافت، سب آوازیں میری ہیں، بے آواز گلی کوچوں میں، آئینوں کے شہر میں نابینا، غزل بہا نہ کرو، خواب گل پریشاں سے، سخن آراستہ ہے [کلیات]، اے عشق جنوں پیشہ۔

مہدی حسن کی گائی ہوئی غزل سے احمد فراز کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔

احمد فراز کا کلام ان کی اپنی زبانی اس ویڈیو میں سنیے

احمد فراز کی ایک غزل سے پسندیدہ اشعار

ہم سنائیں تو کہانی اور ہے

یار لوگوں کی زبانی اور ہے

جو کہا ہم نے وہ مضمون اور تھا

ترجمان کی ترجمانی اور ہے

نامہ بر کو کچھ بھی ہم پیغام دیں

داستاں اس نے سنانی اور ہے

آپ زمزم دوست لائے ہیں عبث

ہم جو پیتے ہیں وہ پانی اور ہے

شاعری کرتی ہے اک دنیا فراز

پر تیری سادہ بیانی اور ہے