جونہی وہائٹ ہاؤس میں افغانستان میں امریکی جرنیل کے انٹرویو کی خبر پہنچی اسے واپس بلا کر سول سپریم کمانڈر کے سامنے پیش کرنے کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔ اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے اپنے سپریم کمانڈر کیخلاف باتیں کی تھیں۔

بہت پرانے وقتوں میں بھی اسلامی ممالک کا سربراہ فوج کا کمانڈر انچیف ہوا کرتا تھا اور اس کی مثال اسلامی فوج کے مشہور اور جری جرنیل خالد بن ولید کی برطرفی ہے۔

لیکن اب پاکستان میں نہ پرانی اسلامی اقدار رہی ہیں اور نہ اپنے محسن امریکہ کی موجودہ اقدار کو اپنایا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں فوج کا کمانڈر ملک کے سربراہ کا باس ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماضی میں کئی مواقع پر کمانڈر نے اپنے باس کو گھر کی راہ دکھائی یہ الگ بات ہے کہ وہ بعد میں خود بھی ذلیل ہو کر رخصت ہوا۔

اب بھی جنرل کیانی ہی سپریم کمانڈر ہیں اور لگتا ہے ان کی نوکری میں ایسے ہی توسیع کر دی جائے گی جیسے جنرل بشرف اپنی نوکری میں توسیع کرتا رہا۔

جب تک یہ روش نہیں بدلے گی یعنی جب تک ہم اپنی اسلامی اقدار بحال نہیں کریں یا پھر جمہوریت میں امریکہ کی تقلید نہیں کریں گے ملک پر فوج کی ہی حکومت رہے گی اور بلڈی سویلین چاہے وہ اراکین اسمبلی ہوں یا سربراہ مملکت یونہی غلامانہ زندگی گزارتے رہیں گے۔ اس کا نقصان صرف اور صرف عوام کو ہو گا۔ اسی لیے جب بھی حالات بدلے عوام کے ذریعے ہی بدلیں گے ہمارے زرخرید حکمرانوں سے امیدیں اب ختم ہو چکی ہے۔