آج وزیرِاعظم نے ٹی وی اینکرز سے ملاقات میں وہی گھسی پٹی بات دہرائی جو آج کل حکومت کا وطیرہ بن چکا ہے یعنی اگر پارلیمنٹ کہے تو وہ بشرف کا ٹرائل کرنے کیلیے تیار ہیں۔ یہ ہمارا معاشرتی المیہ رہا ہے کہ جب کام نہ کرنا ہو تو اسے کسی اور کے ذمے ڈال دیا جاتا ہے۔ فرض کریں آپ کسی صاحب کے پاس کام کے سلسلے میں جاتے ہیں اور وہ آگے سے کہتا ہے کہ فلاں صاحب اگر کہیں تو وہ یہ کام کر دیں گے۔ اس طرح آپ فلاں صاحب کو ڈھونڈنے میں لگ جائیں گے اور وقت گزر جائے گا۔ نہ فلاں شخص ملے گا اور نہ کام ہو گا اور اگر فلاں شخص مل بھی گیا تو وہ ناں کر دے گا۔

یہی حال ہماری حکومت کا ہے جو کام نہ کرنا ہو وہ پارلیمنٹ کے ذمے لگا دو یا پھر اس کیلیے پارلیمانی کمیٹی بنا دو۔ ابھی تک جسٹس ڈوگر کی بیٹی کے غلط نمبر بڑھانے کا مسئلہ اسی لیے حل نہیں ہوا کہ اسے پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ سترہویں ترمیم ختم نہیں ہو رہی کیونکہ اس کیلیے بھی ایک کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے۔ کیری لوگر بل پر بحث بھی راستے میں چھوڑ دی گئی اور اسے جوں کا توں قبول کر لیا گیا۔ اسی طرح کے کئی کام ادھورے پڑے ہیں جو پارلیمنٹ کے کھاتے میں ڈال دیے گئے ہیں۔

خدا کے بندو تمہاری پارلیمنٹ میں اکثریت ہے، تمہارے پاس فرینڈلی اپوزیشن ہے، اگر تم چاہو تو کوئی بھی ترمیم دو تہائی اکثریت سے پاس کرا سکتے ہو۔ ہم تو اسے قوم کو بیوقوف بنانا ہی کہیں گے یعنی وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں کہ دل بے ایمان تے ہویتاں دا ڈھیر والی بات ہے۔ کرنا ورنا کچھ نہیں اور پارلیمنٹ کا بہانہ بنا لینا ہے۔

ایک امریکہ کی پارلیمنٹ ہے جو تاریخ میں پہلی بار میڈیکل بل منظور کرنے جا رہی ہے اور ایک ہماری پارلیمنٹ ہے جو ابھی تک کوئی خاص بل تو پاس کرنا دوسری بات وہ کسی خاص مسئلے پر بحث بھی مکمل نہیں کر سکی۔ دعا ہے خدا قوم کو عقلِ سلیم عطا کرے جو حکمرانوں کی عقل پر پڑے پردے کو اتار کر پھینک سکے۔ آمین