آج سابق سول مارشل لا ایڈمیسٹریٹر اور وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی برسی ہے۔ آج کے دن ملک کے فوجی سربراہ اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاالحق نے بھٹو کو پھانسی دے دی۔ جنرل ضیا سمجھتے تھے کہ قبریں ایک ہیں اور امیدوار دو۔ ان امیدواروں میں سے انہوں نے اپنے آپ کو بچا لیا اور بھٹو کو دفنا دیا۔ آج تک بھٹو کی پھانسی متنازع رہی ہے مگرتجزیہ نگاروں اور تاریخ دانوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ یہ ایک سیاسی پھانسی تھی۔ بھٹو کی موت پر ان جاگیرداروں نے بھی خوشي کا اظہار کیا جن کو بھٹو نے اپنے کارکنوں پر فوقیت دے کر پارٹی ٹکٹ دیے تھے۔ اگر بھٹو سیاسی کارکنوں کو پہلے الیکشن کی طرح اپنے ساتھ ملا کر رکھتے تو وہ ضرور انہیں موت سے بچانے کی کوشش کرتے۔ اس دور کے نو ستاروں پر مشتمل سیاسی اتحاد کے رہنماؤں نے جنرل ضیا کی حکومت میں شامل ہوکراس کیلیے بھٹو کو پھانسی دینا اور آسان بنا دیا۔ ان سیاستدانوں نے اپنے پیٹی بند بھائی کے ساتھ غداری کی اور جمہوریت کے مخالف کی مجلس شوریٰ میں جوک در جوک اسی طرح شامل ہوگئے جس طرح آج نواز شریف کے ساتھی جنرل صدر مشرف کی حکومت میں شامل ہیں۔
ہمارے خیال میں بھٹو کی خود اعتمادی اسے لے ڈوبی جس کی وجہ سے اسے آخر تک یہ یقین تھا کہ جنرل ضیا اسے پھانسی نہیں دے سکے گا۔ اسے یہ بھی یقین تھا کہ عالمی لیڈر اس کو بچانے کیلیے کوششیں کریں گے۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کی پارٹی کے کارکن اسے بچانے کیلیے بھرپور تحریک چلائیں گے۔ اگر اسے ذرا بھی شک ہوتا کہ وہ پھانسی سے نہیں بچ سکے گا تو اپنی بیٹي کی طرح وہ بھی جلاوطنی اختیار کرلیتا۔ اس کی اولاد نے اسے بچانے کی کوشش کی مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ بھٹو کی موت کے بعد اس کی اولاد کی تخریب کاریاں کسی کام نہ آسکیں اور جنرل ضیاالحق نے گیارہ سال تک ڈٹ کر حکومت کی۔
بھٹو کا ایک جلسہ ہم نے بھی دیکھا تھا جب وہ گجرات کے ہارس شو گراؤنڈ میں تقریر کرنے آيا تھا۔ اس دن گراؤنڈ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ ہم نے جلسے کے دوران وہ منظر بھی دیکھا جب لوگوں نے بھٹو کو جوتیاں دکھائیں تو اس نے کہا مجھے معلوم ہے کہ چمڑہ مہنگا ہوگیا ہے اور ميں اس کو سستا کرنے کی کوشش کروں گا۔
بھٹو نے پی این اے کی تحریک کے دوران اس حد تک گھٹنے ٹیک دیے کہ اس نے اپنے سب سے پیارے مشروب تک پر پابندی لگا دی۔ اس نے جمعہ کی چھٹي کا اعلان کردیا مگر پی این اے کی تحریک جو نظام مصطفےٰ کی تحریک میں بدل چکی تھی اس کے قابو میں نہ آسکی۔ یہ الگ بات ہے کہ جنرل ضیا نے بعد میں اس مزہبی رجحان کا جی بھر کر فائدہ اٹھایا۔ اس نے حدود آرڈینینس جاری کیا، اس نے پانچ وقت کی نماز پڑھنے کیلئے ورکروں کو وقت دیا، اس نے شلوار قمیض اور شیروانی کے لباس کو متعارف کرایا، اس نے سرکاری خرچ پر بے حساب عمرے کیے اور یہاں تک کہ اس مزہبی رجحان کو امریکہ کیلیے ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہوئے روس کیخلاف ایک دھائی تک جنگ لڑی۔ یہ الگ بات ہے کہ جب روس کو شکست ہوئی تو جنرل ضیاکو ناکارہ سمجھ کر اللہ میاں کے پاس بھیج دیا گیا۔
بھٹو کے چند کارناموں میںسب سے بڑا کارنامہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ہے۔ یہ بھٹو ہی تھا جس نے بابائے ایٹم بم خان عبدالقدیرخان کو پاکستان واپس بلایا اور اسے ایٹم بم بنانے کا کام سونپا۔
بھٹو کا دوسرا بڑا کانامہ 1973 کا آئین تھا جو اس نے اپنی چالاکی کے زور پر اس وقت کے جغادری سیاستدانوں سے مک مکا کر کے منظور کروایا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اس نے خود بھی اس قانون کی دھجیاں اڑائیں۔
بھٹو کا تیسرا بڑا کارنامہ اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد تھا جس میں اسلامی دنیا کے تقریباً سارے حکمرانوں نے شرکت بلکہ اسی بہانے بھٹو نے مشرقی پاکستان کو تسلیم کیا اور شیخ مجیب الرحمن کو پاکستان میں خوش آمدید کہا۔ بیشک یہ کانفرنس بھی باقی کانفرنسوں کی طرح دکھاوا ہی تھی اور اس کے دورس نتائج نہ نکل سکے۔ لیکن بھٹو کو اسلامی ملکوں کے سربراہوں کو ایک جگہ پر اکٹھا کرکے انہیں اتحاد اور یگانگت کی اہمیت سے ضرور آگاہ کیا۔
بھٹو نے عام آدمی کو سیاسی شعور بخشا۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام کی اکثریت کے ان پڑھ ہونے کی وجہ سے اس سیاسی بیداری کا غلط فائدہ اٹھایا گیا۔ طلبا نے اپنے حقوق کا غلط استعمال کرتے ہوئے بس مالکان کا ناک میں دم کیے رکھا، مزدور یونینوں نے بزنس مینوں کی پیداواری صلاحیت کم کردی۔ مزارع کو مالک بنا دیا جو بعد میں زمیندار کیلیے مضیبت بن گیا۔
بھٹو نے تعلیمی اداروں کو قومیا کر تعلیم مفت کردی۔ اس نیک مقصد کا بھی حکومت کے کرپٹ نظام نے غلط فائدہ اٹھایا اور وزیروں اور افسروں نے تعلیم کا پیسہ سکولوں پر خرچ کرنے کی بجائے اپنی جیبوں میں ڈال لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند سالوں بعد وہ پرائیویٹ سکول جو کبھی جنت کا نمونہ ہوتے تھے کھنڈرات ميں بدل گیے۔ تعلیم کا معیار مزید گر گیا کیونکہ اب اساتدہ کی نوکریاں پکی ہوچکی تھیں اور وہ کسی کو جوابدہ بھی نہيں تھے۔
بھٹو کی کئ غلط پالیسیوں اور احکامات کی وجہ سے قوم کو جو نقصان ہوا اس کا ازالہ آج تک نہیں ہوسکا۔ بھٹو نے شملہ معاہدہ کرکے اپنے فوجی تو واپس لے لیے مگر کشمیر کے مسئلےکو اقوام متحدہ میں نہ لے جانے کی شرط منظور کرلی۔
بھٹو نے اپنے دور کے آخری سالوں میں اپنے مخالفین کو اسی طرح تنگ کیا جس طرح جنرل مشرف نے جاوید ہاشمی اور یوسف رضا گیلانی کو تنگ کر رکھا ہے۔ جس طرح جنرل مشرف نے کرپٹ سیاسیتدانوں کو نیب سے ڈرا کر اپنے ساتھ ملا کر حکومت بنائی اسی طرح بھٹو نے 1977 کے الیکشن میں سیاسی کارکنوں کو چھوڑ کر وڈیروں اور جاگیرداروں کوا سمبلیوں کے ٹکٹ دیے جوبھٹو کی پارٹی کےمنشور کی سراسر خلاف ورزی تھی۔
بھٹو کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں شامل تکون کا ایک کونا تھا۔ اگر بھٹو خود غرضی کا مظاہرہ نہ کرتا اور مجیب الرحمن کی پارٹی کو اقتدار دے دیتا تو شائد پاکستان نہ ٹوٹتا۔ بھٹو نے ادھر تم اور ادھر ہم کا نعرہ لگا کر مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی بنیاد رکھ دی۔
بھٹو سیاسی طورپر بہت ذہین شخص تھا۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ اسی کی ایجاد تھا جن نے اسے دنوں میں ایک قومی ليڈر بنا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اس کے دور میں خوراک کیلیے لوگوں کو قطاروں میں کھڑا ہونا پڑا۔ اس کے دور میں پکی پکائی روٹی کا کارخانہ بھی لگا۔ اس کے افتتاح پر اس نے کہا تھا کہ آج اس نے روٹی کپڑا اور مکان میں سے ایک کا وعدہ پورا کردیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پکی پکائی روٹی کا کاروبار جلد ہی ٹھپ ہوگیا۔
9 users commented in " ذوالفقار علی بھٹو کی برسی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackویسے تو میں بھٹو کا کوئی بہت بڑا فین نہیں ہوں مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کے بھٹو کے بعد پاکستان کو اس جیسا سیاست دان نصیب نہ ہو سکا۔ یہ بھی درست ہے کے بھٹو کو سقوط ڈھاکہ کے مرکزی کردار کے طور پر دیکھا جاتا ہے مگر پھر 71 کی جنگ کے بعد پاکستان کو دوبارہ فعال بنانے میں بھٹو کا بڑا ہاتھ ہے جس سے مخالف بھی انکاری نہیں ہیں اور 73 کا آئین تو گویا نعمت ہی ہے ورنہ پاکستانیوں کے لیے آئین جیسی کسی چیز پر متفق ہونا بڑا ہی مشکل کام تھا خصوصا آج کے دور میں جب مذہبی انتہا پسندی عروج پر پہنچی ہوئی ہے (شاید داڑھی رکھنا بھی آئین کا حصہ بن جاتا) یہ بھی کہا جاتا ہے کے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالنے کی پاداش میں ہی امریکہ نے اپنے پے رول پر موجود ظلمتی ضیاء کو توسط سے بھٹو کو عبرت بنایا تھا۔۔لیکن ایک بات تو طے ہے عالمی برادری میں بھٹو کا لہجہ معذرت خواہانہ کبھی نہیں دیکھا گیا جیسا کے ہمارے موجودہ سیاست دانوں کا ہے۔ جبکہ ایران نے اتنے خراب حالات کے باوجود نہایت عمدگی سے برطانوی نیوی کا معاملہ طے کیا اور اپنی سرحدوں کے تقدس کے حوالے سے بہت ہی اہم پیغام مغرب کو پنچا دیا۔ جس کے لیے شاید ہمیں بھٹو جیسے آدمی کی ہی ضرورت ہے۔
ویسے دیکھا جائے تو مشرف کو مشکل حالات ملے بہ نسبت بھٹو، ضیا یا ایوب کے، کیونکہ اب دنیا میں صرف ایک ہی سپر پاور تسلیم کی جاتی ہے، جبکہ پہلے آپ ایک سے مایوس ہو کر دوسرے کی گود میں بیٹھ سکتے تھے۔ ایوب کا دور تو یوں آسان تھا کہ امریکہ پاکستان کو اپنے کیمپ میں شامل کرنا چاہتا تھا، بھٹو روسیوں کا طرز نظام چاہتا تھا اور یوں اسے روسیوں کی آشیرباد حاصل تھی، ضیا نے افغان جنگ کو کیش کرایا۔ مشرف نے بھی کچھ ایسی ہی کوشش کی وار آن ٹرر کو کیش کرانے کی لیکن ان سب کے آخری دنوں کی طرح مشرف کے آخری دن بھی مشکلات سے پر ہیں۔ ایک بات ضرور کہنا چاہونگا کہ یہ سب لیڈر کم یا زیادہ، پاکستان سے مخلص تھے۔ ہاں بات اپنے اقتدار کی آئی تو سبھی کا ایک سا طرز عمل تھا یا ہے۔
فیصل آپ کی بات بھی درست مگر یہ کیسی مخلصی ہے کہ کسی نے کبھی پاکستان کی عوام پر بھروسہ نہ کیا؟ ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھا کے فیصلوں کو واشنگٹن میں کیسے دیکھا جائے گا نہ کہ اس بات کو کہ کسی فیصلے کو پاکستان کی عوام کس نظر سے دیکھتے ہی ؟ یہی وجہ ہے شاید کے اب پاکستانی ہونا بھی ایک دشوار کام بن گیا ہے۔
فیصل پتہ نہیں آپ کے نزدیک مخلصی کا پیمانہ کیا ہے؟
مگر میرے حساب سے تو یہ صرف اپنی زات سے مخلص تھے اور بس!
میری مراد ان سب کے ایک مخصوص مائنڈ سیٹ سے تھی۔ فوج میں عام طور پر سویلین کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے اور سیاستدانوں کو تو غالبا اس سے بھی کم نمبر ملتے ہیں۔ میرا اپنا بھائی، کئی کزن، بزرگ، فوج میں تھے یا ہیں، میں نے چار سال کیڈٹ کالج میں گزارنے کے بعد اور فوجی زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کے بعد فوجی نہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اور بھٹو بھی بنیادی طور پر تو ایک وڈیرہ ہی تھا، عوامی آدمی نہیں تھا، اس کا اقتدار کا راستہ بھی بہرحال فوج سے گزر کر آیا تھا۔ اب جب یہ لوگ پچھلے دروازے سے آئیں گے تو اسی دروازے کا خیال رکھیں گے نہ کہ عوام کا۔ یہی بات واشنگٹن کو یا کور کمانڈروں کو خوش رکھنے کے زمرے میں آتی ہے۔ رہی بات اخلاص کی تو حضرت عمر کے قول کے مطابق ہم کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ اس کے عمل کو دیکھ کر کریں گے۔ ان سب لیڈروں نے اور سیاستدانوں نے اپنے تئیں پاکستان کے لیے کچھ نہ کچھ کیا ہی ہے۔ بھٹو ایٹم بم لایا، ضیا نے فوج کو بڑی حد تک مسلمان کیا اور برٹش دور کی باقیات کا خاتمہ کیا، اس پر کوئی مالی بدعنوانی کا کیس نہیں، عملا بھی نمازی تھا۔ مشرف نے کچھ اچھے فیصلے بھی کیے مثلا گوادر، اعلی تعلیم کے لئے ایچ ای سی، وغیرہ، گرچہ زیادہ غلطیاں ہی کیں۔ کوئی بھی فرشتہ نہیں نہ کوئی مکمل شیطان تھا۔ جو ہے اسی پر گزارہ کرنا ہو گا، ہم خود بھی تو ایسے ہی ہیں ورنہ اصغر خان بھی الیکشن جیتتا کبھی تو! اس پر انشا اللہ تفصیلا لکھوں گا، بشرط زندگی۔
بُھٹو کی برسی ہے اور کہنے کو بہت کُُچھ اگر اجازت ہو تو کہ،راشد کامران صاحب اور فيصل صاحب کی صائب آرا اور منطقی دلائل سے ميں پوری طرح مُتفق ہوں کہ جو کُچھ بھی ہے بُھٹو ميں ايک ايسا شخص موجود تھا جو کُچھ کر گُزرنے کی طاقت رکھتا تھا اور ببانگِ دُہل کہنے کا حوصلہ بھی رکھتا تھا جس کی مثال اُن کے پُورے کۓ گۓ کُچھ وعدے تھے اور جن ميں سرِفہرِست 72اور 73کا آئين ہے گو 71ميں سقُوطِ مشرقی پاکستان کا دُکھ اس سب سے بڑھ کر رہا پھر بھی بُھٹو نے عوامی رہنُما کا جو درجہ حاصل کيا وہ اُنکی ذاتی کاوش تھی کہ لوگ اورخاص طور پر جس قوم کا نام عوام ہے اُس کے دل مُٹھی ميں لے کر چلتا تھا طريقے گو مُختلف ہوتے ہيں ليکن کرتا ہر کوئ ايسا ہی ہے پھر بھی اگر تاريخ پرنظر ڈاليں تو اتنے برس گُزرنے کے باوجود اگر کسی کو آج بھی اُسی شدّت سے ياد کيا جا رہا ہو يا ياد رکھا گيا ہو تو ايک حيرت انگيز بات ہونے کے ساتھ ساتھ يقينی بات ہے کہ مقناطيسی شخصيّت کا شاخصانہ بھی رہا ہوگا کہ بقول فيصل صاحب „کوئ بھی فرشتہ نہيں اور نا ہی کوئ مُکمل شيطان تھا„اور بحيثيّت انسان غلطی کا امکان تو رہتا ہی ہے ليکن ہم لوگوں کی اُميديں بھی تو اپنے ليڈروں سے کُچھ کم نہيں رہی ہوتيں حالانکہ ديکھا جاۓ تو وہ بھی انسان ہوتے ہيں اے کاش کہ ہميں کوئ ايسی قيادت دستياب ہو سکے جو صرف مُلک کے لۓ سوچے ليکن انتہائ دُکھ سے کہنا چاہوں گی کہ ايسا کُچھ ہوتا دکھائ نہيں ديتا اور صرف دُعاؤں سے ہی کام نہيں ہُوا کرتے دُعا کے ساتھ دوا کی ضرورت بہرحال مُسلّم ہے سو دُعا بھی ہو اور دوا بھی تو ہی بہتر ہے
[shahidaakram], ABUDHABI, متحدہ عرب امارات
فیصل صرف ایک بات مزید کہنا چاہوںگا۔۔ آپ نے کہا کے ضیاء نے فوج کو اسلامی کیا ۔۔ جناب عالی اسی
شاید تبصرہ ادھورا رہ گیا۔۔ میں یہ کہنا چاہتا تھا کے ضیاء کے اسلام نے ہی تو اس ملک کو یہ دن دکھائے ہیں اور یہ کہ اس اکیلے شخص نے اس ملک کو جتنا نقصان پہنچایا ہے پاکستان کے سارے دشمن اجتماعی طور پر کبھی نہ پہنچا سکے۔۔ ضیاء نے پاکستانی معاشرے کی اساس تباہ کردی اور انتہا پسندی کو فروغ دیا جو آج کے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔۔
Leave A Reply