جنگ کی خبر کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان کے رہائشی بارہ سالہ طالبعلم بابر اقبال نے کمپیوٹر کی دنیا میں چوتھا ورلڈ ریکارڈ اپنے نام کیا ہے۔ اس لڑکے نے مائیکروسافٹ ٹیکنیکل سپیشلسٹ ڈویلپر کے امتحان میں ۹۱ فیصد نمبر حاصل کر کے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ہماری حکومت کیلیے یہ سنہری موقع ہے تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے کا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس لڑکےbaber کو ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم میں دعوت پر بلائے اور اس کی پذیرائی کرے تا کہ اس کے ہمعصروں کو پتہ چلے کہ تعلیم سے ہی زندگی بنتی ہے۔ میڈیا کو بھی پہلے سے زیادہ اس لڑکے کو کوریج دینی چاہیے اور جس طرح انڈیا کا اولمپک میڈل ہولڈر باکسر پچھلے ایک سال سے میڈیا پر چھایا ہوا ہے اسی طرح پاکستانی میڈیا کو بھی اس لڑکے کو ہر پروگرام میں بلا کر تعلیم کی ترویج میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔
بابر کے خاندان کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ مائیکروسافٹ اور کمپیوٹنگ ان کے گھر کی باندی ہے۔ باپ سے لیکر کر بہن بھائیوں تک سبھی کمپیوٹر سے منسلک ہیں۔ ایک بھائی دبئی میں ہے جس کی وساطت سے بابر نے دبئی میں مائیکروسافٹ کا امتحان دیا اور دنیا میں مشہور ہوا۔
پاکستان، انڈیا اور چائنہ دنیا کی تین بڑی منڈیاں ہیں جہاں سے ذہین افراد کی خریداری ہوتی ہے اور انہیں یورپ برآمد کر دیا جاتا ہے۔ یہی ذہین افراد آگے چل کر یورپ کی ٹیکنالوجی کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس وقت مائیکروسافٹ کمپنی انڈین ورکرز سے بھری پڑی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب امریکہ سمیت یورپ میں تعلیم کے ہر میدان میں چائینی ہی چائینی نظر آنے لگیں گے۔ جینیئس سائبر کڈ کہلوانے والا بچہ پتہ نہیں ڈیرہ اسماعیل خان میں اب تک کیا کر رہا ہے۔ لگتا ہے اسے نہ تو حکومت نے گھاس ڈالی ہے اور نہ ہی ابھی تک اسے یورپین نے خریدا ہے۔ اگر حکمران بھی اس کی طرح ذہین ہوتے تو یہ لڑکا اب تک ایچیسن جیسے بڑے تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہا ہوتا اور ملک کا نام روشن کرتا۔ ہمیں ابھی بھی اندیشہ ہے کہ یہ جینیئس بہت جلد یورپ سمگل کر دیا جائے گا یا پھر دبئی چلا جائے گا۔