بہت پرانی بات ہے جب ہماری دوستی ایک حافظ صاحب کیساتھ تھی اور ایک دن انہوں نے بتایا کہ صابری قوال ساتھ والے گاؤں میں ایک عرس پر آرہے ہیں تو ہم ان کیساتھ ہولیے۔ اس رات ہم نے کئ گھنٹے صابری برادران کو سنا اور جی بھر کر سنا۔ فرید صابری قوال ایک سپیشل قسم کا ساز بجاتے رہے اور لوگ سر دہنتے رہے۔غلام فرید بمقابلہ عزیزمیاں

تب سے ہمیں قوالی کا چسکا پڑا اور ہم نے صابری قوال کیساتھ ساتھ عزیز میاں اور پھر نصرت فتح علی خاں کو سننا شروع کردیا۔

وہ قوالی کے عروج کا زمانہ تھا اور لوگ دھڑا دھڑ قوالی کی کیسٹیں خرید کرسنا کرتے تھے۔ جمعہ کا دن قوالی اور نعت وحمد کا دن ہوا کرتا تھا اور فلمی گانون کی چھٹی ہوا کرتی تھی۔

 اسی قوالی کے انداز میں منی بیگم نے غزلیں گانا شروع کیں جو بہت مشہور ہوئیں۔

 اس زمانے میںفلمساز اپنی فلموں میں بھی ایک آدھ قوالی شامل کرلیا کرتے تھے جو فلم بینوں کو سینما کی طرف کھینچ لایا کرتی تھی۔

اس قوالی کی تالی، پھر انترے کی تکرار اور اشعار کی ملاوٹ سے وہ سماں بندھتا تھا کہ آدمی اپنے ہوش کھو بیٹھتا تھا۔ اس قوالی کو مغربی انداز میں جب نصرت فتح علی خان نے یورپ میں متعارف کرایا تو مغرب بھی اس کا دیوانہ ہوگیا۔ عزیزمیاں قوال کو بھی داد دینی پڑے گی جن کے کنسرٹ یورپ میں بہت جوش و خروش سے دیکھے جانے لگے۔

صابری برادران نے قوالی کو مذہبی رنگ سے نکال کر سب کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ یاد کریں ان کی “پانی کی قوالی” اور “پیسے کی قوالی” اور عزیز میاں کا قوالی میں اشعار کا اثرانگیز استعمال۔

اس دور کے بعد بدرمیاں داد، راحت فتح علی خاں، غلام فرید صابری کے صاحبزادے اور پھر کئی اور قوال آئے مگر وہ اپنا الگ تاثر نہ چھوڑ سکے۔

یہاں پر صابری برادران کی قوالی سنیے اور پرانے زمانے کی یاد تازہ کیجئے۔

اس کے بعد عزیزمیاں کی کلاسیکل پرفارمنس سے لطف اٹھایے

آخر میں صابری برادران کی دو اور قوالیوں کے مزے لوٹیے