ہم سب لوگ اس بات سے واقف ہیں جب بھی کسی ہمدرد اور اعلٰی ظرف کو کسی طاقتور نے مانگنے کیلیے اجازت دی تو اس نے کبھی تھرڈ کلاس چیز نہیں مانگی۔ ہمیشہ اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی قوم کیلیے مانگا۔بلکہ جب خدا نے اپنے نبی صلعم سے کہا مانگو کیا مانگتے ہو تو آپ صلعم نے اپنی قوم کی بخشش مانگی۔

اب ہم اس روایت کو بھول چکے ہیں اور جب بھی بیرون ملک اور وہ بھی اپنے آقاؤں کے ملک کے دورے پر چاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی خواہشات ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ ہماری خواہشات کی لسٹ میں اپنے آقاؤں کی قربت اور اپنی حکمرانی کی حفاظت سر فہرست  ہوتی ہے۔ ہم یہی دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں کہ میزبان نے ہمیں اپنے ذاتی گھر میں دعوت دی اور اپنے ساتھ تصویر بنوا دی۔ اس تصویر کی بنا پر ہم عطار کے لونڈے کی طرح اکڑتے پھرتے ہیں۔

ہم وزیراعظم سے بھی درخواست کریں گے کہ اگر ان کے دل میں ذرا برابر بھی قوم پرستی ہے تو پھر وہ اپنے موجودہ امریکی دورے کے دوران ایسی بھیک مانگیں جس سے ان کی قوم کا بھلا ہو۔

ہماری نظر میں اس وقت قوم کو بجلی کی اشد ضرورت ہے اور ہمارے وزیراعظم کو صدر بش سے ایٹمی پاور پلانٹ مانگنا چاہیے تاکہ ہمارا ملک لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات حاصل کر سکے

گندم کی امداد قبول کرنے کی بجائے گندم ، چاول اور کپاس کی پیداوار بڑھانے کیلیے جدید ٹیکنالوجی مانگنی چاہیے تاک ہم خوراک کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکیں۔

وزیراعظم کو اگر مانگنا ہے تو اپنے ملک میں لا اینڈ آرڈر کی بہتری کیلیے تکنیکی اور انتظامی امور کی مدد مانگنی چاہیے اور صدر بش سے پوچھنا چاہیے کہ امریکہ کی طرح پاکستان میں کیسے چوریاں ڈاکے کم ہو سکتے ہیں اور لوگوں کو سستا انصاف مل سکتا ہے۔

ججوں کی بحالی پر بھی وزیراعظم کو مشورہ کرنا چاہے اور پوچھنا چاہیے کہ امریکہ نے تاحیات چیف جسٹس سمیت اعلٰی عدلیہ کے ججوں کی تقرری اور مقامی ججوں کی عوام کے ووٹوں سے منتخب کرکے کون سے فوائد حاصل کیے ہیں تاکہ ہم بھی ان کے تجربے سے فائدہ اٹھا سکیں۔

وزیراعظم نے اگر مانگنا ہی ہے تو امریکہ کی پچاس ریاستوں کے اتحاد کا گر سیکھنا چاہیے اور پوچھنا چاہیے کہ کس طرح ہم اپنے چار صوبوں کو امریکہ کی پچاس ریاستوں کی طرح متحد رکھ سکتے ہیں۔

وزیراعظم کو ایک ایسا طریقہ بھی سیکھ کر آنا چاہیے جس کی وجہ سے پاکستان میں بھی فرقہ بندی ایسے ہی ختم ہو جائے جس طرح امریکہ میں نہیں ہے۔ امریکہ میں تمام مذاہب اور فرقے امن و سکون سے رہ رہے ہیں مگر پاکستان میں روز ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں۔

وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ صدر بش سے اسی طرح قرضے معاف کروائیں جس طرح انہوں نے عراق کے نہ صرف امریکہ سے قرضے معاف کروایے بلکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرح کے دوسرے ملکوں سے بھی عراق کے قرضے معاف کروا دیے۔

اگر وزیراعظم کی نیت کھوٹی ہوئی تو وہ امریکہ سے مندرجہ بالا مطالبات کی بجائے کچھ اس طرح کے معاہدے کرکے واپس آجائیں گے۔

ہم آپ کے حکم پر سرحدی علاقوں اور بلوچستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے بس آپ ہماری حکومت کو گرنے نہ دیں

ہم ملک میں بجلی اور پانی کا بحراں جاری رکھیں گے تاکہ ملک اتنی ترقی نہ کر جائے کہ کسی وقت مذہبی انتہا پسند اس پر قبضہ کرکے آپ کیلیے خطرہ نہ بن جائیں

آپ بے فکر رہیں ہم فوجی امداد میں جتنا اسلحہ لیں گے وہ دشمن کیخلاف استعمال کرنے کی بجائے اپنے ہی لوگوں کیخلاف استعمال کریں گے۔