آج وزیراعظم گیلانی کو نیب کے سارے مقدمات سے بری کیا گیا تو ہمیں خیال آيا کہ ایک شخص نے گیلانی صاحب کیخلاف نیب میں مقدمات درج کرائے اور دوسرے شخص نے انہیں بری کر دیا۔ اب ان دونوں میں سے کوئی ایک تو غلط ہو گا۔ یا تو پہلے شخص نے گیلانی صاحب کیخلاف جھوٹے مقدمات بنائے یا پھر موجودہ جج نے غلط طریقے سے انہیں بری کر دیا۔ جس نے بھی غلط کیا اس کو سزا تو ملنی چاہیے مگر ایسا شاید اس لیے نہیں ہو گا کہ مقدمات درج کرانے والا طاقتور تھا اور ہے جس کیخلاف گیلانی صاحب وزیراعطم ہوتے ہوئے بھی کوئی ایکشن نہیں لے سکتے۔

ایسا پاکستان کی تاریخ میں کئی بار ہو چکا ہے کہ ایک شخص نے فیصلہ سنایا اور دوسرے شخص نے اسے الٹ دیا۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ دونوں میں سے جو بھی قصوروار ہو اسے سزا دی جائے۔ لیکن ایسا اس لیے نہیں ہوتا کہ سیاست اور حکومت آدمی کو سیاسی بنا دیتی ہے جو بے غیرتی کی دوسری شکل ہے۔

جیسا کہ صدر زرداری صاحب کو آٹھ سال جیل میں رکھنے والے نے ان کے تمام مقدمات ختم کر دیے۔ اب زرداری صاحب کس منہ سے اس شخص سے اپنے ضائع ہونے والے قیمتی آٹھ سالوں کا حساب لیں۔ اسی طرح پہلے جنرل مشرف نے پی پی پی کے فارورڈ بلاک کو نیب کا رگڑا دیا اور بعد میں انہیں حکومت میں شامل کر لیا۔ اس کا مطلب ہے جنرل مشرف یا پہلے غلط تھے یا بعد میں۔

بھٹو کو جنرل ضیاء نے پھانسی دی جسے بعد میں اکثریت نے سیاسی قتل قرار دیا مگر تین دفعہ پی پی پی کی حکومت بننے کے باوجود بھٹو خاندان کو وہ طاقت نہیں ملی جسے وہ استعمال کرکے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکے تا کہ اس پھانسی کو غلط ثابت کیا جا سکے۔

سیاست نام ہی بے غیرتی کا ہے کل کے دشمن آج کے دوست بنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سیاست میں سب جائز ہے۔ پی پی پی کی سابقہ حکومت ایم کیو ایم کی چھتر پریڈ کرتی ہے مگر ایم کیو ایم پھر بھی موجودہ پی پی پی کی حکومت کا حصہ بن جاتی ہے۔

پتہ سب کو ہوتا ہے کہ غلط کون ہے مگر ذاتی مفادات اور مجبیوریاں سب کے ہاتھ پاؤں باندھ دیتی ہیں۔ جب تک عدلیہ آزاد نہیں ہو گی اور سب کو برابر کے حقوق حاصل نہیں ہوں گے یہ کبھی ثابت نہیں کیا جا سکے گا کہ دونوں میں سے کون غلط تھا۔ سب سیاستدان جانتے بوجھتے ہوئے بھی اپنی آنکھیں بند رکھیں گے اور بے غیرتی کی چادر لپیٹے کبھی مسند صدارت پر بیٹھیں ہوں گے اور کبھی جیل کی ہوا کھا رہے ہوں گے۔