نامور شاعر احمد فراز کو ان کے عہدے سے ہٹا ديا گيا اور پھر ان سے سرکاري گھر بھي زبردستي خالي کرا ليا گيا۔ اس کے بدلے ميں احمد فراز نے حکومت کي طرف سے ملنے والا ستارۂ امتيان الزام تراشي کے ساتھ واپس کرديا۔

بات يہ ہوئي کہ بقول احمد فراز کے انہوں نے حکومت کے خلاف کچھ ٹي وي انٹريوز ديۓ جن ميں انہوں نے فوج کے کردار کي حد تعين کرنے کي بات کي تھي۔ اس کے بعد حکومت طيش ميں آگئ اور اس نے ان کے گھر کا سامان سڑک پر پھيک کر گھر خالي کراليا۔ احمد فراز چونکہ حکومت کے ملازم تھے اسلۓاپني بيوي کي ريٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے گھر اپنے نام منتقل کرنے کي درخواست دے رکھي تھي۔ اس درجواست سے نپٹنے کيلۓ حکومت نے انہيں سرکاري عہدے سے ہي ہٹا ديا تاکہ نہ رہے بانسري اور نہ بجے بانسري۔ اس کے بعد احمد فراز کے پاس اس کے سوا کوئي چارہ نہيں تھا کہ وہ اس حکومت کا ديا ہوا اعزاز واپس کرديتے۔

ہميں تو يہ ملک کي خدمت کم اور ذاتي لڑائي زيادہ لگتي ہے۔ اس ذاتي لڑائي ميں نقصان دونوں پارٹيوں کے ساتھ ساتھ ملک کا بھي ہوا ہے۔

پتہ نہيں احمد فراز صاحب کو اچانک کيا ہوگيا کہ جس کا کھا رہے تھے اسي کي چادر ميں چھيد کرنے لگے۔ بھلا آپ چھ سال سےاسي فوجي حکومت کے زيرِ سايہ کام کررہے تھے تو وہ کيا تھا۔  اب آپ کو اس حکومت ميں ساري خرابياں نظر آنا شروع ہوگئيں۔ اچھا ہوتا جو صاف گوئي سے کام ليتے اور کہتے کہ آپ نے اپنا گھر اور عہدہ واپس لے ليا اور ميں نے احجاجاٌ اپنا اعزاز واپس کرديا۔

چليں کسي بہانے تو فراز صاحب کو خيال آيا کہ يہ حکومت جمہوري نہيں بلکہ فوجي ہے۔