پاکستان کرکٹ کے چیئرمین شہریار خاں ایک ریٹائرڈ کیریئر ڈپلومیٹ ہیں جن کا کہنا ہے کہ کرکٹ کے زوال کی وجہ انپڑھ کرکٹر ہیں۔ حالانکہ کرکٹ کے زوال کی اصل وجہ ان جیسے لوگ ہیں جن کا کرکٹ کی سوجھ بوجھ سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ جس شعبے کا چئیرمین اپنے شعبے کی تکنیکی مہارتوں سے نابلد ہو، جس شعبے کا کرتا دھرتا ایک صحافی ہو وہ شعبہ زوال پذیر نہیں ہو گا تو کیا ہوگا۔ نجم سیٹھی جیسا خودغرض جب کسی شعبے کا انچارج ہو گا تو بے غیرتی وہاں ضرور پروان چڑھے گی۔
اگر تعلیم کی کمی کھیل میں حائل ہوتی تو نامی گرامی پہلوان اور باکسر کبھی پیدا نہ ہوتے۔
جب شہریار یہ کہتے ہیں کہ کرکٹ کے کھلاڑیوں کی اکثریت گلی محلے میں کھیل کر آگے آئی ہے تو وہ اپنی ہی حکومت کے منہ پر تمانچہ مار رہے ہیں کیونکہ انہی کی حکومت نے کھلاڑیوں کو صہولتیں مہیا نہیں کیں۔
ہمارے والدین کوئی پڑھے لکھے نہیں تھے مگر انہوں نے اپنے بزرگوں سے سیکھا تھا کہ بچوں کی تربیت کیسے کرنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سیدھے رستے پر چلے اور کامیاب ہوئے۔ یعنی اگر کسی بھی شخص کو آپ نے سنوارنا ہے تو پھر اس کے ملازمین کی تربیت اچھی کیجئے اور انہیں اچھا ماحول دیجئے پھر دیکھئے ان کی صلاحیتیں کیسے نکھر کر سامنے آتی ہیں۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ کالے انگریزوں نے انگریزی کو ہی تعلیم کا معیار مقرر کر دیا ہے۔ اگر آپ کو انگریزی آتی ہے تو پھر ہی آپ کرکٹ کے کپتان بنیں گے۔ یہ لیڈرشپ کا اصول کھیل میں نہیں چلتا۔ ہاں اگر آپ چاہیں تو کپتان کو انگریزی زبان کی تعلیم دلا سکتے ہیں مگر انگریزی نہ آنے کی وجہ سے اسے کپتان نہ بنانا سراسر جاہلیت ہے جو ہمارے موجودہ کرکٹ بورڈ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔