بھارتی سیکولر رائٹر اور شاعر جو اپنے نام “گلزار” کی وجہ سے مسلمان دکھائی دیتا ہے نے ایک فلم “کیا دلی کیا لاہور” کے گانے لکھے ہیں۔ اس فلم کے نام سے لگتا ہے کہ تقسیم ہند کو دو بھائیوں کے درمیان لکیر کھینچنے سے تشبیہ دی گئی ہو گی اور آخر میں یہ پیغام دیا گیا ہو گا کہ یہ لکیر ایسی ہی ہے جیسے کبڈی کھیلنے والی ٹیموں کے درمیان ہوتی ہے اور کہنے کی کوشش کرے گا کہ آئیں اس لکیر کو ختم کر دیں۔
کاش ہمارے ہاں کوئی ایسا ادارہ ہوتا یا کم از کم پاکستانی حکمران کسی فلم ساز سے مل کر اس فلم کے مقابلے میں اپنی فلم بناتے جس میں پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کا ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کیساتھ موازنہ کر کے ثابت کیا جاتا کہ پاکستان بنانا کتنا ضروری تھا اور اگر پاکستان نہ بنتا تو پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کی بھی ہندو وہ حالت کرتے جو انہوں نے ہندوستان میں کی ہوئی ہے۔
سنا ہے ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت انتہائی غریب ہے اور ان کی اکثریت گلی کونچوں میں جھاڑو لگاتی، دفتروں میں چپراسیوں کا کام کرتی اور جھوپنڑیوں میں رہتی ہے۔ ہندوستان کی فلمیں دیکھ لیں اکثر میں یا تو مسلمان کو طوائف، غنڈہ یا نوکر دکھایا جاتا ہے۔ عشقیہ فلم ہو تو اکثر لڑکی کو پاکستانی دکھا کر مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہندوستان ہمارے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کے بعد بھی سمجھتا ہے کہ ہم بھائی ہیں۔ حالانکہ اگر وہ حقیقت میں بھائی ہوتا تو دوسرے بھائی کے کبھی دو ٹکڑے نہ کرتا۔ اگر ہندوستان کہتا ہے کہ پاکستان کی تقسیم غلط تھی تو پھر بنگلہ دیش کو آزادی دلوا کر اسے اپنا حصہ بنا لیتا۔ مگر بنگالیوں نے پاکستان سے علیحدگی کے باوجود ہندوستان کے ساتھ الحاق نہیں کیا۔
ان تلخ حقائق کے باوجود ہندوستانی سمجھتے ہیں کہ وہ میڈیا کی طاقت سے پاکستانی عوام کو فتح کر لیں گے۔ میڈیا کی یلغار کو روکنے کیلیے ہماری کسی حکومت نے کوئی اقدامت نہیں اٹھائے بلکہ الٹا ہندوستانی میڈیا کو پاکستان کے گھر گھر میں پہنچا دیا ہے جب کہ دوسری طرف ہندوستان جو بڑا بھائی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہاں پاکستانی ٹی وی چینلز پر پابندی ہے۔ ہمارے کرکٹرز کو آئی پی ایل میں نہیں کھلایا جا رہا۔ ہمارے ساتھ نہ کرکٹ اور نہ ہاکی سیریز کھیلی جا رہی ہے۔
ان سب قباحتوں کے باوجود گلزار صاحب سمجھتے ہیں کہ وہ ایسی فلموں سے پاکستان کو ایک دن ضرور ہندوستان کا دوبارہ حصہ بنا لیں گے۔ گلزار صاحب یہ آپ کی بھول ہے۔