مندرجہ ذیل مضمون میں ہم بی بی سی کے ترتیب کردہ ڈاکٹر عائشہ کی کتاب ملٹری انک کے اقتباسات پیش کررہے ہیں۔۔ لیکن اس سے پہلے ہماری چند گزارشات۔
مصنف نے بڑی عرق ریزی کرکے یہ کتاب لکھی ہے اور ان کے لکھے کی تصدیق قاری اپنی آنکھوں سے اپنے ارد گرد فوجی سیٹ اپ دیکھ کر کرسکتا ہے۔ اسلئے جو بھی اس کتاب میں دئے گئے حقائق کی تردید کرنے کی کوشش کرے گا اسے کافی مشکل پیش آئے گی۔
اس کتاب کے اقتباسات پڑھنے کے بعد ہمارے دل میں یونہی خیال آیا کہ حکومت جہاں ملک کے بڑے بڑے اداروں کی نج کاری کررہی ہے وہاں اس نے نیم فوجی اداروں کی نج کاری کا کیوں نہیں سوچا۔ حکومت فوجی فاؤنڈیشن اور این ایل سی کی بھی اسی طرح نج کاری کرسکتی تھی جس طرح اس نے بینکوں اور ٹیلی کام کی نج کاری کی۔
فوج اتنی حکومتی معاملات میں گھس چکی ہے کہ اسے حکومت سے باہر رکھنا اب ناممکن ہوچکا ہے۔ حکومتی عمل دخل کو جنرل مشرف کی موجودہ حکومت نے اتنا مضبوط کردیا ہے کہ اسے اب سیاست سے باہر ایک مکمل عوامی انقلاب ہی کرسکتا ہے۔ ترکی کے عوام پڑھے لکھے ہونے کے باوجود ملٹری کے اثرورسوخ کو کم نہیں کرسکے تو پھر پاکستانی ناخواندہ عوام کیسے کریں گے۔
یہ یورپین کا طریقہ واردات رہا ہے کہ فوج کو سول سوسائٹی پر مسلط کردو اور پھر ایک ڈکٹیٹر سے معاملات کرکے ملک کو غلام بنائے رکھو۔ یہ دوغلے پن کی کھلی مثال ہے یعنی یورپین اپنے ملکوں میں تو جمہوریت چلائیں اور فوج کو حکومتی معاملات سے الگ رکھیں مگر اپنے زیر اثر غیریورپی ملکوں پر فوجی جمہوریت کو پسند کریں۔ یہی وجہ ہے آج تک یورپین کے زیراثر ملکوں میں فوجی ٹریننگ کا نظام قومی خدمت کی بجائے قومی احتصال پر مشتمل رہا ہے جہاں سے فوجی عوامی خدمتگار کی بجائے ڈکٹیٹڑ بن کر نکلتے ہیں۔
یہ اسی فوجی تربیت کا نتیجہ ہے کہ ابھی پچھلے ہفتے بہاولپور کی تحصیل یزمان میں رینجرز نے ایک ریڑھی بان کی اسلیے پٹائی کردی کہ اس نے انہیں مفت سروس دینے سے ناکار کردیا تھا۔ اس کے بعد جب رینجرز نے دوچار لوگوں کو مارا پیٹا اور انہیں اپنے ساتھ لے گئے تو شہریوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے بدلے میں سول شہری رہا ہوئے اور فوج اور عوام میں صلح ہوئی۔
آئیں اب بی بی سی کے ترتیب دئے گئے اقتباسات پڑھتے ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق پاک فوج کے کاروباری مفادات معیشت کے تینوں سیکٹرز زراعت، مینوفیکچرنگ اور سروسز میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض صورتوں میں یہ مفادات ادارہ جاتی سطع پر پائے جاتے ہیں جیسے نیشنل لاجسٹک سیل اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن میں جہاں کاروباری ادارے براہِ راست پاک فوج کے کنٹرول میں ہیں۔
دوسری صورت فوجی فاؤنڈیشن، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، شاہین فاؤنڈیشن اور بحریہ فاؤنڈیشن جیسے اداروں کی ہے جو براہِ راست فوج کے زیر انتظام تو نہیں لیکن فوج کے ایسے اداروں سے گہرے مالی مفادات وابستہ ہیں۔
تیسری صورت فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں کو حاصل ہونے والے مالی مفادات کی ہے جو انہیں سویلین اداروں میں ملازمتوں اور اِسی نوعیت کے دیگر طریقوں سے پہنچائے جاتے ہیں۔
’چاروں فاؤنڈیشنوں کی جانب سے چلائے جانے والے چھیانوے منصوبوں میں سے صرف نو سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ ہیں‘
مصنفہ کے مطابق فوج نے اپنی کاروباری سرگرمیوں سے متعلق ہمیشہ رازداری سے کام لیا ہے اور جب بھی کسی نے فوج کے زیر اہتمام چلنے والے کاروباری اداروں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
’فوج کے کاروباری اداروں میں ایک بڑا گروپ فوجی فاؤنڈیشن ہے۔ سن دو ہزار پانچ میں تحقیقات کے دوران منتخب پارلیمنٹ کو وزارت دفاع نے جھاڑ پلا دی تھی کیونکہ اس نے فوجی فاؤنڈیشن کے کسی متنازعہ کاروباری لین دین کے بارے میں دریافت کیا تھا‘۔
فوج اپنی کاروباری سرگرمیوں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کسی بھی کوشش کو ’مخالفین‘ کے حسد سے تعبیر کرتی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے صدر جنرل مشرف کی ایک تقریر سے اقتباس پیش کیا ہے۔
’پھر ہمارے پاس آرمی ویلفیئر ٹرسٹ ہے، ہمارے پاس فوجی فاؤنڈیشن ہے۔ ہاں، یہ بینکنگ کا کام کر رہے ہیں ۔۔۔ یہ کام کر رہے ہیں ۔۔۔ ہمارے پاس فرٹیلائزر (کے کارخانے) ہیں ۔۔۔ ہم دوائیں تک تیار کر رہے ہیں۔ ہم نے سیمنٹ پلانٹ لگائے ہوئے ہیں ۔۔۔ تو پھر مسئلہ کیا ہے اگر یہ ادارے معیشت میں حصہ لے رہے ہیں اور اچھے طریقے سے چلائے جا رہے ہیں؟ ہمارے پاس بہترین بنک ہیں۔ ہمارے سیمنٹ کے کارخانے کی کارکردگی غیر معمولی طور پر اچھی ہے۔ ہمارے کھاد کارخانے غیر معمولی طور پر اچھے چل رہے ہیں۔ تو کسی کو حسد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ لوگ کیوں جلتے ہیں اگر ریٹائرڈ فوجی افسران یا ان کے ساتھ سویلین پاکستان کی معیشت کو بہتر بنا رہے ہیں اور اچھا کام کر رہے ہیں؟
یہ کتاب دس ابواب پر مشتمل ہے۔
پہلا باب جس کا عنوان ہے ’مل بس: ایک نظریاتی تصور‘۔ مل بس یعنی ملٹری بزنس اور سول ملٹری تعلقات کے درمیان رابطوں کی وضاحت کرتا ہے۔ بنیادی دلیل یہ ہے کہ مل بس ایک ایسا عنصر ہے جو زیادہ تر فوجوں میں پایا جاتا ہے۔ تاہم فوج کی معیشت اور معاشروں میں دراندازی کا تعلق اس کی سیاسی قوت یا دوسرے معاشرتی اور سیاسی کرداروں سے اس کے براہِ راست تعلقات سے ہوتا ہے۔ فوج جو اندازِ کار اپناتی ہے اس کا دارومدار سول ملٹری تعلقات کی نوعیت اور ریاست میں سیاسی اداروں کے استحکام سے ہوتا ہے۔ اس باب میں سول ملٹری تعلقات کی چھ مختلف اقسام کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان تمام اقسام میں فوج کی اپنے مفادات بڑھانے اور ان کا تحفظ کرنے کی طاقت، ریاست کی طاقت کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ سول ملٹری تعلقات کی پہلی دو اقسام، جو سیاسی قوتوں کی مضبوطی کی بجائے فوج کی مضبوطی کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں۔ آخر میں فوج کی ایک قسم ہے جو ریاست کی ناکامیوں سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ زیادہ تر افریقہ میں پائی جانے والی یہ افواج جنگجو سرداروں کے ساتھ مل کر ریاستی اثاثوں کی لوٹ مار کرتی ہیں۔
دوسرا باب پاکستان کے مطالعاتی جائزے کا آغاز ہے۔ جیسا کہ فوج کی سیاسی طاقت اس کی معاشی غارتگری کی حدود کا تعین کرتی ہے، یہ باب پاکستانی فوج کی طاقت اور اس کے آمرانہ کردار کے ارتقاء کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ باب جس کا عنوان ہے ’پاکستانی فوج: آمریت کا ارتقاء 1947 تا 1977‘ مسلح افواج کے بتدریج مضبوط ہونے کے بارے میں ہے۔ فوج کے سیاسی ارتقاء پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ اس باب میں فوج کے مینڈیٹ، اس کی نسلی ہیئت اور اس کے تنظیمی ڈھانچے پر بھی بات کی گئی ہے۔ پاکستانی فوج ملک کا سب سے طاقتور ادارہ ہے۔ اس اعلٰی تر صلاحیت کو ریاست کے محافظ کے کردار سے وابستہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ کردار 1947 میں آزادی کے کچھ ہی دیر بعد شروع ہو گیا تھا۔ ہندوستان کے ساتھ پہلی جنگ نے ہی ملک کی سیاسی سمت کا تعین کر دیا تھا۔ فوج کو بغیر مناسب سویلین کنٹرول کے ایک بڑے آپریشن کی اجازت دیے جانے سے فوج نمایاں حیثیت اختیار کر گئی۔ اس طرح بیرونی خطرے کو فوج اور اس کی طاقت کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا۔ درحقیقت، بیرونی خطرے کی تشریح میں اندرونی سلامتی کے معاملات کو بھی شامل کر لیا گیا۔ فوج نے قومی مفاد کی تشریح کسی دوسرے ادارے کی طرف سے کسی روک ٹوک کے بغیر کی۔ ملک کی سول اشرافیہ نے بھی فوج کو نمایاں حیثیت دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بنیادی طور پر اس ادارے کو سول بیوروکریسی کے لیے سیاسی اختیار بڑھانے کا آلہ کار سمجھا گیا، یہ سوچے بغیر کہ اس طرح فوج خود اپنے لیے بھی مقتدر ہو جائے گی۔ 1958 کے مارشل لاء کا مقصد سول بیوروکریسی کی حکمرانی قائم کرنا تھا۔ اس کی بجائے فوج کی جاہ پسند قیادت نے اقتدار ہائی جیک کر لیا۔ اس وقت کئی عوامل تھے جنہوں نے فوج کو مضبوط تر کیا؛ ان میں سب سے اہم فوج اور تین بالادست طبقات کے درمیان تعلق تھا۔ ان طبقات کی نشاندہی حمزہ علوی نے اپنی ایک کتاب میں کر چکے ہیں۔
اس باب میں یہ دلائل بھی دیے گئے ہیں کہ مسلح افواج میں حکمران فوج کا کردار لازماً موجود تھا۔ فوج کا سیاست سے کنارہ کش ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پہلے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، ایوب خان سے یحیٰی خان کا اقتدار لے لینا دوسری مرتبہ فوج کا اقتدار پر قبضہ نہیں تھا بلکہ ایک جوابی فوجی انقلاب تھا جو فوج اور اعلٰی ترین ریاستی کمان میں ایک تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ فوج سیاست میں 1971 سے 1972 تک شریک رہی جب اسے ہندوستان کے ساتھ جنگ میں ناکامی کی وجہ سے واپس بھیج دیا گیا۔
بھٹو جس طبقے کی نمائندگی کرتے تھے اور خود ان کے جو سیاسی عزائم تھے ان کی وجہ سے وہ عوامی طاقت کو منظم شکل دینے یا جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے
تیسرا باب، ’فوجی طبقے کا ارتقاء، 1977 تا 2005‘ فوج کی سیاسی طاقت میں اضافے پر بحث جاری رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح افسر طبقے کے مالیاتی مفادات میں اضافے نے فوجی برادری کی معاشی خود مختاری میں اضافہ کیا اور اسے ایسا اختیار فراہم کیا کہ یہ دوسروں پر انحصار سے آزاد ہو جائے۔ 1972 میں جمہوریت بحال کرتے ہوئے فوج نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کیا جائے جو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے شیخ مجیب الرحمٰن کی نسبت فوج کے زیادہ قریب تھے۔ بھٹو جاگیردار طبقے کی نمائندگی کرتےتھے، جو ملک کی حکمران اشرافیہ کا حصہ ہے۔ تاہم فوج سیاسی نظام کو پوری طرح کنٹرول نہ کر سکی۔ 1977 کی دہائی پاکستان میں عوامی سیاست کی دہائی تھی اور اس سے عوام نسبتاً زیادہ بااختیار ہوئے۔ بھٹو جس طبقے کی نمائندگی کرتے تھے اور خود ان کے جو سیاسی عزائم تھے ان کی وجہ سے وہ عوامی طاقت کو منظم شکل دینے یا جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے۔ اس کی بجائے، جیسا کہ تیسرے باب میں بتایا گیا ہے، منتخب وزیراعظم نے مسلح افواج کی تعمیر نو کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فوج 1977 میں دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں موجود تھی۔ اس کے بعد سے فوج کی اعلٰی قیادت فوج کے معاشی مفادات کو مستحکم کرنے اور ادارے کے اقتدار کو منظم شکل دینے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔تیسرے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، جنرل ضیاء الحق نے قومی سلامتی کونسل کے قیام کی بحث چھیڑی۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو فوج کو حکمرانی میں ایک مستقل کردار دلا دے گا۔ اگرچہ جنرل ضیاء کو قومی سلامتی کونسل کے قیام میں کامیابی نہیں ہوئی لیکن انہوں نے آئین کے آرٹیکل اٹھاون (دو) (بی) متعارف کرا لیا جو صدر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ منتخب حکومت کو برطرف کر دے۔
انیس سو نوے کی دہائی میں یہ شق سیاسی حکومتوں کو برطرف کرنے کے لیے کئی مرتبہ استعمال کی گئی۔ قومی سلامتی کونسل کے قیام کا منصوبہ بالآخر دو ہزار چار میں چوتھے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں کامیاب ہوا۔ اگرچہ ضیاء کے دور میں قومی سلامتی کونسل قائم نہ ہو سکی مگر فوج کو نمایاں حیثیت ملی اور 1988 میں ایک پراسرار فضائی حادثے میں فوجی آمر کی موت کے بعد بھی اسے واپس نہیں دھکیلا جا سکا۔ دراصل سیاستدانوں نے بھی فوج کے معاشی مفادات کو مستحکم کرنے میں کردار ادا کیا۔ مسلح افواج کو معاشی فائدے اٹھانے کے زیادہ مواقع فراہم کیے گئے۔ ادارے کے معاشی مفادات نے اس کے سیاسی عزائم کے ساتھ مل کر اسے اپنی طاقت کو باقاعدہ منظم شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
چوتھے باب میں جس کا عنوان ہے: ’مل بس کا تنظیمی ڈھانچہ‘ پاکستانی فوج کی معاشی سلطنت کی تنظیمی ہیئت کے خدوخال بتائے گئے ہیں۔ اس میں کمان اور کنٹرول کے نظام اور معاشی وسائل کے حصول کے مختلف طریقوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ فوجی کی سلطنت تین مختلف سطحوں پر کام کرتی ہے: (الف) ادارے کی براہِ راست شمولیت سے؛ (ب) کسی ذیلی کمپنی کے ذریعے معاشی فائدے حاصل کرکے اور (ج) فوجی برادری کے ارکان کو بحیثیت افراد فائدے پہنچا کر۔ یہ طرزعمل انڈونیشیا سے ملتا جلتا ہے جہاں اعلٰی ترین سیاسی قیادت فوج کے ساتھ ساتھ معاشی غارتگری میں شریک ہے۔
قومی سلامتی کونسل کے قیام کا منصوبہ بالآخر دو ہزار چار میں چوتھے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں کامیاب ہوا
پانچواں باب جس کا عنوان ہے ’مل بس کا تشکیلی دور‘ 1954 تا 1977‘ تشکیلی دور میں مل بس کے ارتقاء کا جائزہ لیتا ہے۔ 1950 کی دہائی کے وسط سے مسلح افواج نے معیشت کے تینوں شعبوں یعنی زراعت، صنعت اور خدمات میں اپنے مفادات کو وسیع کر چکی ہیں۔ ان تیئس برسوں کو دو مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے: (الف) 1954 تا 69 اور (ب) 1969 تا 77۔ کم و بیش انہی ادوار میں ملک میں سیاسی تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں۔ پہلے سولہ برس تشکیلی تھے جن میں مسلح افواج نے رفتہ رفتہ سیاست اور معیشت میں اپنے پاؤں جمائے۔ اگلے سولہ برس کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری دور حکومت کی شکل میں ایک وقفہ آیا۔ یہی وہ واحد دور تھا جب مسلح افواج کو خودمختاری سے روکنے کے لیے سیاسی رہنما کے ارادے کی وجہ سے مل بس نے تیزی سے نشوونما نہیں پائی۔ تاہم بھٹو اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے فوج پر انحصار کی وجہ سے فوج کی سیاسی اور مالیاتی خودمختاری کو روکنے میں ناکام رہے۔
چھٹا باب ’مل بس کی توسیع، 1977 تا 2005‘ مذکورہ برسوں کے دوران مل بس کے پھیلاؤ کے بارے میں ہے۔ یہ وہ عرصہ ہے جب فوج کی داخلی معیشت کئی گنا بڑھی۔ 1977 میں تیسرے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد فوج نے اپنے معاشی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف پراجیکٹ شروع کیے جن میں فوج کے معاشی مفادات کو مزید باضابطہ شکل دینے کے لیے نئے اداروں مثلاً شاہین اور بحریہ فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا۔ غیرمستحکم جمہوریت کے دس برسوں کے دوران فوج کے معاشی کردار کو مزید تقویت ملی۔ 1988 سے 1999 کے دوران سیاسی حکومتوں نے مسلح افواج کو ان کی حمایت کے بدلے میں اضافی معاشی فائدے فراہم کیے۔ اس دور میں فوج فنانس اور بینکنگ جیسے نئے شعبوں میں داخل ہوئی۔ آخری دور فوج کے معاشی مفادات کی توسیع اور استحکام کا دور تھا۔ انیس سو ننانوے میں چوتھی مرتبہ فوج کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ دفاعی اسٹیبلشمنٹ کی معاشرے میں فوج کی مداخلت بہت بڑھ گئی۔
ساتواں باب، ’نئے جاگیردار‘ مسلح افواج کے شہری اور دیہی زمینوں پر قبضے کے بارے میں ہے۔ پاکستان کا مسئلہ، وسائل خصوصاً زمینوں کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ چند لوگ بڑے قطعاتِ اراضی کے مالک ہیں جبکہ دوسری طرف تیس ملین بے زمین کاشتکار اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور زمین کی تلاش میں رہتے ہیں۔ تاہم، بالادست طبقات، جن میں فوج بھی شامل ہے، خود اپنے لیے زمینوں کے حصول میں مصروف رہے ہیں۔ بعض مقاصد کے لیے فوج کو زمینیں دینے کی برطانوی روایت کو افسران کے سینئر درجوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ریاست اور اس کی فوج کا جاگیردارانہ رویہ زمینوں کی تقسیم اور اہم وسائل مثلاً پانی پر اجارہ داری سے ظاہر ہوتا ہے۔
فوج بھی زمینوں کے حصول میں شامل
اگرچہ سپاہیوں کو بھی انعام کے طور پر زمین دی جاتی ہے مگر انہیں زرعی زمین کو ترقی دینے کے لیے پانی تک رسائی فراہم نہیں کی جاتی۔ یہ سہولت سینئر افسران تک محدود ہے۔ وسائل کی یہ غیرمساوی تقسیم سینئر افسروں کو اسی طبقے میں لے جاتی ہے جس میں سویلین جاگیردار ہیں۔ اس کے علاوہ شہری اراضی حکمران طبقے کی طاقت کا مظہر ہوتی ہے۔ مکانات کی کمی کا مسئلہ حل کرنے کی بجائے یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے شہروں کے بہترین علاقوں کی زمینیں مسلح افواج کے افسران اور دوسرے بالادست طبقات کو دینے کا طریقہ اپنائے رکھا۔
آٹھویں باب کا عنوان ہے، ’ملازمین کے لیے سہولیات کی فراہمی: فوج کی فلاح و بہبود‘۔ اس باب میں فوج کی اس دلیل کا جائزہ لیا گیا ہے۔ حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجیوں کے لیے بہبود کے پروگرام بنیادی طور پر فوج کی ملازمت کو ملک کے جسمانی طور پر اہل شہریوں کے لیے پُرکشش بنانے کے لیے چلائے جاتے ہیں۔ یہ فلاح و بہبود اس کی اپنی سیاست اور جہتوں کے مطابق چل رہی ہے۔ ایک سطح پر بہبود کے فنڈز کی تقسیم کا انحصار ممکنہ فائدہ حاصل کرنے والے کے اثر و رسوخ پر ہوتا ہے۔ سینئر افسروں کو چھوٹے ملازمین کے مقابلے میں فائدوں میں حصہ نسبتاً زیادہ ملتا ہے۔ ایک اور سطح پر، بھرتی کی غلط پالیسی کی وجہ سے جو چھوٹے صوبوں اور بعض نسلی اقلیتوں کے خلاف تعصب پر مبنی ہے، وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ ملک میں موجودہ نسلی تناؤ اس غیرمتوازن تقسیم کی وجہ سے پایا جاتا ہے۔
نویں باب کا عنوان ’مل بس کی قیمت‘ ہے۔ اس باب میں فوج کی داخلی معیشت کی مالی قیمت کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس باب میں پیش کیے گئے اعدادوشمار فوج کے اس دعوے پر سوال اٹھاتے ہیں کہ اس کے تجارتی منصوبے اچھی کارکردگی کے حامل ہیں۔ فوج کے بعض بڑے کاروباری اداروں یا ذیلی اداروں نے مالیاتی امداد حاصل کرکے حکومت کو زیرِبار کیا ہے۔ حکومت کے اس دعوے کے باوجود کہ یہ کاروبار نجی شعبے کا حصہ ہیں، مختلف کمپنیاں سرکاری وسائل استعمال کرتی ہیں۔ اس طرزعمل سے مارکیٹ میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اس سے مل بس کے مالیاتی اور مواقع کے لحاظ سے نقصانات بڑھ جاتے ہیں۔ فوج کی داخلی معیشت مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔
’مل بس اور پاکستان کا مستقبل‘ کے عنوان سے تحریر کیے جانے والے دسویں باب میں، فوجی معیشت کے فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور ملک کی سیاست پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
مذہبی قدامت پسندی: اتفاق یا نتیجہ
گزشتہ ابواب میں پیش کیے گئے شواہد کی بنیاد پر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مل بس سیاسی اور سماجی دونوں لحاظ سے نقصان کا سودا ہے۔ سیاسی اعتبار سے یہ فوج میں اقتدار کی ہوس پیدا کرتا ہے۔ کوئی فوج جس کے اس قدر گہرے مفادات ہوں اسے بالادست مقام سے اس وقت تک ہٹایا نہیں جا سکتا جب تک ملک میں یا بین الاقوامی جغرافیائی و سیاسی ماحول میں ایسی اہم تبدیلیاں نہ آئیں جو مسلح افواج کو سیاسی اختیار سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیں۔
سماجی طور پر مل بس معاشرے میں منصف قوت کے طور پر فوج کی قبولیت کو کم کر دیتا ہے اور محروم طبقات کی محرومی کو بڑھا دیتا ہے۔ مل بس معاشی استحصال کو باضابطہ شکل دینے کا نام ہے جس کا اثر فوج کے کردار پر بھی پڑتا ہے، اس قسم کی معیشت فوج کو ایک غارتگر ادارے میں تبدیل کر دیتی ہے جو طاقت کو فوج کے، خصوصاً فوجی اشرافیہ کے معاشی فوائد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ عام آدمی جو پہلے ہی بالادست طبقات کے لالچ سے دلبرداشتہ ہے فوج سے بھی انصاف کی امید کھو دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تنہائی معاشرے کو دوسرے، عموماً انتہا پسندانہ نظریات کی جانب دھکیل سکتی ہے۔
یہ معلوم کرنا اہم ہوگا کہ کیا پاکستان، ترکی اور انڈونیشیا میں جہاں سول ملٹری تعلقات سرپرستانہ اور محافظانہ نوعیت کے ہیں، مذہبی قدامت پسندی میں اضافہ محض اتفاق ہے یا مسلح افواج کے کردار میں تبدیلیوں کا نتیجہ۔
No user commented in " ڈاکٹرعائشہ صدیقہ کی کتاب ملٹری انکارپوریٹڈ "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply