کچھ لوگوں کا خیال ہے دولت سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے مگر اکثریت کا خیال ہے کہ طاقت سے سب کچھ خریدا جا سکتا ہے۔ ڈکٹیٹرشپ میں طاقت ایک ہاتھ میں ہوتی ہے جمہوریت میں نہیں۔ مگر کیا کیا جائے اس بات کی سمجھ ہمارے زرداری صاحب کو نہیں آ رہی۔

پچھلے دنوں ہم نے انور مقصود اور معین اختر کا شو دیکھا۔ اس میں انور مقصود نے بڑي اچھی بات کہی۔ کہنے لگے انہیں علامہ اقبال خواب میں ملے اور کہنے لگے “میں نے جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر تو مجھے نہیں ملی مگر صدر زرداری نے جو خواب نہیں دیکھا انہیں اس کی تعبیر مل گئی ہے”۔

خدا کے بندے آپ کو پہلے ہی بیوی کی ساری جائیداد مل چکی ہے۔ اس کی جائیداد کے دوسرے وارث پہلے ہی ملک عدم پہنچ چکے ہیں۔ آپ کے پاس دنیا کی ہر آسائش ہے یعنی ایوان صدر ہے، نوکر چاکر ہیں، حسیناؤں کی ریل پیل ہے تو پھر اب کرپشن کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ انصار عباسی نے جو پراپرٹی سکینڈل آپ کے نام منصوب کیا ہے اس میں ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس طرح کے چکر تو وہ چلائیں جو ہماری طرح کے بیچارے ہر آسائش سے محروم ہیں۔

اگر صدر زرداری سیانے ہوتے تو ہمارے خیال میں نہ چوہدری افتخار کی بحالی کی تحریک پر خفت اٹھاتے اور نہ این آر او کی واپسی پر شرمندگی سے دوچار ہوتے۔ وہ آرام سے عوام کی خدمت کرتے اور ایوان صدر ان کی خدمت کرتا۔ راتوں کو رنگ رلیاں مناتے اور دن کے وقت عوام کے مسیحا ہوتے۔ احتساب اپنے وزیروں کا کرتے، کرپشن سے پاک معاشرے کی بنیاد رکھتے، چوروں لٹیروں کا صفایا کرتے اور نیک نامی کماتے۔ مجال ہے جو کوئی ان کیخلاف درباری سازش کرتا۔ میاں نواز شریف کا بھی مڈٹرم انتخابات کا خواب ادھورا رہ جاتا اور زرداری صاحب کا نام تاریخ کی کتابوں میں سنہرے حروف سے لکھا جاتا۔ وہ اپنی مکاری کو مثبت انداز میں استعمال کر کے لمبے عرصے تک عیاشی بھی کرتے اور ان کی جگہ جگہ جگ ہنسائی بھی نہ ہوتی جو اب ہو رہی ہے۔ یعنی سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹتی۔

ہمارے استاد کلاس ميں لڑکوں کو ہنستا دیکھ کر کہا کرتے تھے تھوڑا ہنسا کرو کیونکہ رب نے ہنسنے اور رونے کا کوٹہ مقرر کر رکھا ہے۔ اگر ہنسنے کا کوٹہ پہلے ہی ختم کر بیٹھے تو باقی عمر روتے ہی رہو گے۔ یہی حال زردای صاحب کا ہے۔ اگر ان کی قسمت میں کرپشن سے ہی دولت لکھی ہوئی ہے تو پھر آرام آرام سے کرپشن کرتے تا کہ زیادہ عرصہ اقتدار میں بھی رہتے اور دولت بھی اتنی ہی اکٹھی کر لیتے۔

ابھی تو لگتا ہے کہ زرداری صاحب اپنے کوٹے کیساتھ ساتھ اپنے بیٹے بلاول کا کوٹہ بھی ہضم کر چکے ہیں۔ تبھی تو ہر طرف ان کے جانے کی افواہیں اڑ رہی ہیں بلکہ ان کے حواری بھی اب قربانی دینے کا مشورہ دینے لگے ہیں۔ کہاں لمبے عرصے تک ایوان صدارت میں رہنا اور کہاں دو تین سال بعد ہی ملک ملک کی خاک چھاننے کیلیے تیاری شروع کر دینا۔ اب آپ ہی بتائیں زرداری صاحب کو کونسا راستہ چننا چاہیے تھا؟