موجودہ حکومت بجلی کی لوڈشیڈنگ کم کرنے کیلیے اور تو کچھ کر نہیں سکی ہاں اس نے یکم جون سے پاکستان کی گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی ہیں۔ جس طرح مسلمان ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا اسی طرح ایک دفعہ آزمایا ہوا یعنی فیل شدہ طریقہ دوبارہ آزمایا نہیں جاتا مگر کیا کیا جائے ان غلاموں کا جنہوں نے آنکھیں بند کرکے اپنے آقاؤں کی نقالی کرنے کی قسم ٹھان رکھی ہے چاہے اس کا فائدہ ہو یا نہ ہو۔

قربان جایے حکومت کی عقل پر جس نے ایسے پاکستان میں وقت ایک گھنٹہ آگے کردیا ہے جس کی آبادی کی اکثریت کے پاس گھڑیاں ہی نہیں ہیں۔ ہم مسلمان تو دن کا آغاز فجر کی نماز سے شروع کرتے ہیں اور عشا کی نماز پر ختم کر دیتے ہیں اگر حکومت نے گھنٹہ آگے بڑھا دیا ہے تو کیا ہوا فجر اور عشا کا وقت تو وہی رہا ہے ناں۔ حکومت نے لگتا ہے صرف تبدیلی کی خاطر یہ قدم اٹھایا ہے تاکہ وہ ثابت کر سکے کہ وہ بجلی کا بحران ختم کرنے میں کتنی مخلص ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فیکٹریوں کو اپنے اوقات ایڈجسٹ کرنے کی ہدایت کی جاتی یعنی ہر فیکٹری کو ہفتہ کا ایک دن چھٹي کیلیے چننے کو کہا جاتا اور اس طرح کارخانے دار ہفتے کے مختلف دنوں میں چھٹیاں کرکے بجلی کے لوڈ کو آپس میں بانٹ لیتے۔ اسی طرح شہر کے مختلف علاقوں یا شہروں میں چھٹی کا دن الگ رکھ لیا جاتا تاکہ اس دن شہر کا وہ حصہ یا وہ شہر ہر لحاظ سے بند ہوتا یعنی اس حصے یا شہر میں کاروبار بند ہوتے، سکول بند ہوتے اور دفتروں میں چھٹي ہوتی۔

ہمارے خیال میں وقت ایک گھنٹہ آگے کرکے نہ پہلے فائدہ ہوا تھا اور نہ اب ہو گا ہاں اس طرح ہمارے آقاؤں کے ڈی ایس ٹی یعنی ڈے ٹائم سیونگ ٹائم کی مقبولیت میں اضافہ ہو جائے گا۔ ہمارے حکمرانوں نے وقت بدلنے سے پہلے آقاؤں کے ملک میں ڈی ایس ٹی کے ٹائم کی وجہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی۔ اگر وہ کوشش کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ وقت کی تبدیلی کا فائدہ صرف ان ملکوں کو ہوتا ہے جو اونچائی پر واقع ہیں تاکہ انہیں سورج کی روشنی زیادہ مل سکے۔ نیچی سطح پر ملکوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

یہ شعر شاید کسی نے حکمرانوں کی عقل کو دیکھتے ہوئے ہی لکھا ہے جس ميں انہیں سکھوں سے بھی زیادہ بیوقوف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ سکھوں کے بارہ بجنے کے مزاح کا استعارہ اس شعر میں خوب جچا ہے اور حکمرانوں کو ٹھیک نشانے پر لگا ہے۔

ہم نے عزت رکھ لی ہے اپنے سرداروں کی ورنہ

وہ تو تلے تھے بارہ پر ہم نے گھنٹہ بڑھا دیا

اس تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کیلیے اپنے ایک بلاگر دوست کا یہ آرٹیکل پڑھیے۔

زمان و مکاں