پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہو گا جہاں دولت ے بل بوتے پر امیروں کے بچوں کو میرٹ سے مستثنیٰ قرار دے کر غریبوں کی حق تلفی کی جاتی ہے۔ اس حق تلفی کے ازالے کیلیے ابھی صرف پنجاب نے میڈیکل کالجوں سے سیلف فنانس سسٹم ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کیا یہ سیلف فنانس سسٹم صرف میڈیکل کالجوں میں تھا یا دوسرے تعلیمی اداروں میں بھی ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ کیا یہ صرف پنجاب میں تھا یا دوسرے صوبوں میں بھی ہے۔ اگر یہ سسٹم دوسرے تعلیمی اداروں اور صوبوں میں بھی ہے تو اسے وفاقی حکومت کو پنجاب حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ختم کر دینا چاہیے۔

اگر دیکھا جائے تو پچھلی حکومت کا سیلف فنانس سسٹم کو متعارف کرانا تعلیمی اداروں کے اخرابات کو کم کرے کا بہانہ تھا۔ حکومت کا جواز اپنی جگہ پہ درست تھا مگر اس جواز کے بہانے میرٹ کی سیٹیں کم نہیں کرنی چاہیے تھیں۔ میرٹ کی سیٹیں اگر کم نہ بھی کی جاتیں تب بھی سیلف فنانس سسٹم ٹھیک نہیں تھا۔ شوکت عزیز نے سیلف فنانس سسٹم تعلیمی اداروں میں متعارف کراکے دوسرے بہت سے فوائد کی طرح امرا کو اس طرح بھی نوازا۔ مارا گیا تو بیچارہ غریب جس کے پاس سرکاری فیس کے پیسے جمع کرنا مشکل تھا وہ سیلف فنانس پر داخلے کیلیے لاکھوں روپوں کا بندوبست کہاں سے کرتا۔

ہمارے بھائی کی دو بیٹیاں ساڑھے آٹھ سو نمبر لینے کے باوجود میڈیکل کالج میں داخلے سے محروم رہیں اور بھائی دولت کی کمی کی وجہ سے انہیں سیلف فنانس پر داخلہ نہ دلوا سکے۔ بعد میں ایک نے بی فارمیسی کرلی اور دوسری نے کمپیوٹر سائنس۔ دوسری طرف ہماری ہمشیرہ نے اپنی بیٹی کو سیلف فنانس پر میڈیکل کالج میں داخلہ دلوایا اور اب وہ اس کے پانچ لاکھ روپے سالانہ ادا کر رہی ہے۔

ہمارے ہاں تعلیمی معیار پہلے ہی دوہرا تھا یعنی غریبوں کے بچے سرکاری سکولوں میں ینچوں اور ٹاٹوں پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور امیروں کےایچیسن کالج کی طرح کے اعلٰی تعلیمی اداروں میں۔ شوکت عزیز نے سیلف فنانس سسٹم متعارف کراکے امیر غریب میں فرق اور بڑھا دیا۔

اگر امیر کا بچہ تعلیمی قابلیت کی بجائے اپنی دولت کے بل بوتے پر داخلہ لے کر غریب کا حق مارے گا تو پھر غریب بیچارہ کس کے رحم و کرم پر ہو گا۔ شوکت عزیز نے سیلف فنانس سسٹم متعارف کراتے ہوئے یہ کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ اگر یہ سسٹم ان کے طالبعلمی کے دور میں ہوتا تو شاید ان کا حق بھی کوئی امیر مار جاتا اور وہ سیلف میڈ کبھی نہ بنتے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے دوسرے دوہرے تعلیمی معیارات کو ختم کرنے کے اقدامات اٹھائے اور کم از کم تعلیمی میدان امیر غریب کے درمیان خلیج کو بڑھانے کی بچائے کم کرے۔ آج بجٹ پیش ہو رہا ہے ہمیں نہیں امید کہ حکومت تعلیمی بجٹ میں کوئی خاطر خواہ اضافہ کر پائے گی کیونکہ بجٹ بنانے والے غیر ہیں اور وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستانی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو جائیں۔