ٹیکنیکل لوگ جانتے ہیں کہ اگر فیکٹری میں کہیں پرابلم آجاۓ تو اس کو حل کرنے کے چند طریقے ہیں۔ مثلأ فش بون انیلسس، فائیو وہائی، ڈیزائن آف انجئینرنگ وغیرہ ۔ ہم نے طے کیا ہے پاکستان کے مسائل کا تکنیکی بنیادوں پر حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فائیو وہائی یعنی پانچ کیوںکو ہم استعمال کرتے ہوۓ آئیں پاکستان کے سب سے بڑے پرابلم جسے ہم بے ایمانی يا بدعنواني کہتے ہیں کا حل تلاش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم پرابلم کو بیان کرتے ہیں اور پھر ہم دیکھیں گے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس وجہ کو ہم ایک اور کیوں کہ کر آگے بڑہیں گے اور پانچ دفعہ کیوں کہ کر پرابلم کی روٹ کاز معلوم کریں گے۔
ہمارا آج کا پرابلم ہے “ہم پاکستانی بحیثیت قوم بےایمان یعنی کرپٹ کیوں ہیں؟”
اس پرابلم کو چند مثالوں سے ہم واضح کرتے ہیں۔ آجکل اگر ہم پاکستان ميں رہ رہے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ رشوت اور سفارش کے بغیر کوئی بھی کام کرانا ناممکن ہو گیا ہوا ہے۔ آپ نے بجلی کا کنکشن لگوانا ہو، تیلیفون کی لائن لینی ہو، گھر کا نقشہ منظور کروانا ہو، پانی یا گیس کی سپلائی لینی ہو، بچے کو سکول داخل کروانا ہو تو آپ کو یا تو رشوت دینی پڑے گی یا پھر سفارش کا سہارا لینا پڑے گا۔ یہاں ایک چھوٹی سی مثال اس کی سپورٹ میں درج کرتے ہیں۔
واہ کینٹ پاکستان کا ایک ترقی یافتہ شہر ہے۔ یہاں ایک مولوی دوست نے گھر خریدا اور اس کو ٹرانسفر کرانے کی بورڈ میں درخواست دی۔ یہ دوست چار سال واہ میں رہے مگر مکان ان کے نام نہ ہوا اور پھر وہ امریکہ چلے گۓ۔ ابھی چند دن پہلے ان سے بات ہوئی تو بتانے لگے کہ کینٹ بورڈ والوں نے دس سال بعد جب محسوس کیا کہ اس مولوی سے کچھ ملنے والا نہیں تو انہوں نے گھر ان کے نام کر دیا۔
چند سال قبل ہم موٹر سائیکل پر انارکلی میں گھس گۓ اور ابھی زیادہ دور نہیں گۓ تھے کہ اپنی غلطی کا احساس ہوا اور واپس ہو لۓ مگر موٹر سائیکل سے اتر کر اور چوک میں سپاہی سے پوچھا کہ انارکلی بازار کے دوسری طرف جانا ہے۔ انہوں نے ہمیں راستہ بتانے کی بجاۓ ہمارا لائیسنس لیا اور کھوکھے والے کو رپورٹ کرنے کو کہا۔ کھوکھے والے نے ہم سے پانچ سو مانگے اور ہم نے دیکھا کہ چوک میں ایک تھانیدار کھڑا ہے اور اس سے بات کی۔ اس نے کہا کہ ابھی تمہیں لائیسنس واپس مل جاۓ گا مگر بعد میں پھر کھوکھے والے کی طرف بھیجا گیا اور اس نے پانچ سو لے کر ہی لائیسنس واپس کیا۔
اس طرح کے واقعات روز کا معمول ہیں اور ہم سب کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں۔ اب پرابلم یہ ہے کہ ہم لوگ کیوں اتنے لالچی ہو چکے ہیں اور اسی طرح کی دوسري بے ایمانیوں کا بھی شکار ہیں، سرکاری ملازم دفاتر سے چیزیں گھر لے آتے ہیں۔ سرکاری گاڑیوں کا بے تحاشا استعمال کرتے ہیں۔ سرکاری ملازموں سے گھر کے کام لیتے ہیں۔ اپنے ماتحتوں سے مل کر کنٹریکٹرز سے کمیشن بھی لیتے ہیں۔ سکولوں میں کم پڑہاتے ہیں اورطالبعلموں کو اپنے گھروں میں ٹیوشن پڑھانے پر مجبور کرتے ہیں۔ بنک سے قرضہ نہیں ملتا جب تک بنک آفیسر کے ساتھ کمیشن طے نہ ہو۔ٹیلیفون کا بل بلاجواز زیادہ آجاۓ تو بناں رشوت دیۓ ٹھیک نہیں ہوتا۔
طے یہ ہوا کہ ہم لوگ کرپٹ ہیں اور کرپٹ کیوں ہیں اس کی وجہ ہم نے معلوم کرنی ہے۔ اور اس کیلۓ ہم پہلا سوال کیوں کہ کر کرتے ہیں۔
سوال ۔ ہم بے ایمان يا کرپٹ کیوں ہیں؟
میرا جواب تو یہ ہے کہ ہم طبقاتی کشمکش کا شکار ہیں اور ایک دوسرے سے زیادہ امیر ہونا چاہتے ہیں چاہے اسکیلۓ ہمیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ آپ بھی اس کیوں کا جواب دیجۓ۔