اپوزيشن کئ ہفتوں سے حکومت سے اس بات کا مطالبہ کر رہي ہے کہ زلزلہ زدگان کي مدد اور وہاں تعميرِ نو کيلۓ ايک پارليماني کميٹي بناۓ جس ميں حزبِ اختلاف کو بھي شامل کيا جاۓ۔ مگر حکومت ہے کہ اس بات پر دھيان ہي نہيں دے رہي۔ حکومت اس کميٹي کو بنا کر اپنے اس کاروبار ميں کسي اور کو شريک نہيں کرناچاہتي کيونکہ اسطرح اس کے کاروباري راز فاش ہو جائيں گے۔حزبِ اختلاف بھي پاگل ہے جو اس قسم کا مطالبہ کر رہي ہے اور جانتي بھي ہے کہ اس طرح کي کميٹي پاکستان کي تاريخ ميں کبھي بھي نہيں بني۔ حکومت کے وزيروں کو بڑي مدت کے بعد ايک نادر موقع ملا ہے منافع کمانے کا اور وہ اس کو کھونا نہيں چاہتے۔
واہ رے بھولي اپوزيشن جو سمجھ رہي ہے کہ فارن کواليفائيڈ وزيرِاعظم سيدھا سادھا ہے اور وہ ان کي بات مان لے گا۔ ان کو يہ معلوم نہيں کہ ان کے مشير دنيا جہان کے چھٹے ہوۓ ہيں اور وہ ان کو اس طرح کا مشورہ کبھي نہيں ديں گے۔ وزيرِاعظم کو کيا پرواہ ہے کہ زلزلہ زدگان اپنے گھروں ميں آباد ہو سکيں گے کہ نہيں کيونکہ ان کي حکومت ختم ہوتے ہي يہ وہا ں چلے جائيں گے جہاں سے آۓ تھے۔ بيچارے مارے جائيں گے تو جاويد ہاشمي اور جہانگير بدر جيسے بھولے ليڈر جن کو اتنا بھي معلوم نہيں کہ موقع سے فائيدہ کيسے اٹھا يا جاتا ہے۔ ان کو چاہۓ تھا کہ سياست کي سوجھ بوجھ جاننے کيلۓ دو چار دن شيخ رشيد کے ساتھ گزارتے۔