لڑکي نے ايف ايس سي کي اور ابھي اس کا داخلہ بھي بي ايس سي ميں نہيں ہوا تھا کہ اس نے والد کو ايک روقعہ تھما کر سارے گھر ميں کہرام پيدا کر ديا۔ اس نے اپني تحرير ميں والد صاحب کو مخاطب کرکے پہلے سارے عزيز و اقارب کے ماضي کو کھنگالا اور پھر والد کو بتايا کہ وہ اپنے پڑوسي سے محبت کرتي ہے اور اس سے شادي کرنا چاہتي ہے۔ اس نے والد صاحب کو بھي ان کي جواني کي نادانياں یاد کرائيں۔
اس کے والد صاحب يہ سن کر غصے ميں آگ بگولا ہوگۓ۔ پہلے انہوں نے اپني بيوي کولعنت ملامت کي کہ وہ بچي کا خيال نہ رکھ سکي اور پھر يہ الٹي ميٹم دے کر نوکري پر چلے گۓ کہ اس لڑکي کي جب تک شادي نہيں ہوگي وہ گھر نہيں آئيں گے۔ دراصل لڑکي کے والد صاحب سرکاري ملازم ہيں اور ہفتہ ميں ايک دن گھر کا چکر لگاتے ہيں اسطرح ان کے بچوں کي پرورش کي ذمہ داري ان کي بيوي اور والدن پر ہے۔ والد نے اس سارے معاملے کا ذمہ دار اپني بيوي اور والد صاحب کو ٹھرايا کيونکہ ان کے والد نے بچي کو لائق ہونے کي بنا پر اچھے سکول ميں داخل کرايا تھا اور اس سکول ميں کو ايجوکيشن تھي۔ والد کا خيال ہے کہ لڑکي کے کوايجوکيشن ميں پرھنے کي وجہ سے يہ ساري خرابي پيدا ہوئي۔
لڑکي جس لڑکے سے شادي کرنا چاہتي ہے وہ ابھي بھي طالبعلم ہے اور والدين کے پاس رہ رہا ہے۔ لڑکے کا والد انتہائي مکار اور کمينہ ہے ۔ وہ گلي ميں کھڑا ہو کر اپني بيوي کو گالياں ديتا ہے اور محلے والوں کے ساتھ بھي بد تميضي سے پيش آتا ہے۔ يہي ايک وجہ ہے کہ لڑکي کے سرپرست ادھر رشتہ نہيں کرنا چاہتے۔ لڑکے کا والد صرف اور صرف لڑکي والوں کي دولت اور سرکاري نوکري کے دبدبے سے مرعوب ہے اور لڑکے کي شادي ان کے ہاں کرکے معاشي اور ذاتي فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
انہوں نے لڑکي کو يہ آفر بھي دي کہ وہ اس کي کسي اور سے شادي کرديتے ہيں مگر لڑکي بضد ہے کہ وہ اسي لڑکے سے شادي کرے گي کيونکہ وہ کسي اور کووہ حقيقي پيار نہ دے سکے گي جو اس کو دے سکتي ہے۔
اب لڑکي والوں کے پاس مندرجہ ذيل راستے ہيں۔
١۔ لڑکي کي شادي اسي لڑکے سے کردي جاۓ مگر اس کے بعد لڑکي اور اس کے سسرال والوں سے قطع تعلق کر ليا جاۓ۔
٢۔ لڑکي کي شادي زبردستي کہيں اور کر دي جاۓ
٣۔ لڑکي کو زہر دے کر مار ديا جاۓ
٤۔ اس گھر کو بيچ کر اس شہر سے کہیں اور منتقل ہو جائيں
اب آپ بتائيں کہ لڑکي والے کيا کريں؟