موجودہ حکومت کے اقدامات سے ہر کوئی یہی کہ رہا ہے کہ مشرف کے جانے کے بعد کوئی فرق نہیں پڑا اور اس کی پالیسیوں کا تسلسل جاری ہے۔ مشرف نے بھی میڈیا کے وہ چینل بند کر دیے جو اس کی پالیسیوں پر تنقید کر رہے تھے اور موجودہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی کراچی سمیت سندھ کے بیشتر شہروں میں جیو اور اے آر وائی پر پابندی لگا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہی میڈیا آزاد ہو گا جو حکومت کی تعریف کرے گا  اور اس میڈیا پر پابندی لگے گی جو حکومت پر تنقید کرے گا۔

عجیب بے غیرتی کی فضا ملک میں بن چکی ہے۔ حکومت میڈیا پر پابندی بھی لگاتی ہے اور اسے مانتی بھی نہیں۔ جیو اور اے آر وائی سندھ میں بند پڑے ہیں، وزیراعظم سے لے کر شیری رحمن تک نے اس کی مزمت کی ہے مگر کوئی ماننے کیلیے تیار نہیں کہ یہ پابندی کس نے لگائی۔ کراچی میں تو ایم کیو ایم کی حکومت ہے اور وہ تو آسانی سے بتا سکتے ہیں کہ پابندی لگانے میں کس کا ہاتھ ہے۔ وزیراعظم نے وزیراطلاعات سے پوچھنے کا وعدہ کیا ہے، وزیراطلاعات نے پمرا سے تفتیش کرنے کو کہا ہے اور کیبل آپریٹر بھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ انہیں کس نے دونوں چینل بند کرنے کا حکم دیا۔

پرانے وقتوں میں اس طرح کی ذلالت کم ہی دیکھنے کو ملا کرتی تھی۔ اگر حکومت سنسرشپ لگاتی تو کھلے عام اس کا اعتراف کرتی۔ اگر اسے کسی اخبار سے خار ہوتی تو وہ اس کے اشہارات بند کر دیتی۔ مگر جنرل مشرف کے دور سے حکومتوں نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ جو کرنا ہے کرتے جاؤ مگر کسی بھی جرم کا اعتراف نہ کرو۔ ویسے تو سب کو معلوم ہے کہ میڈیا پر پابندی کیوں لگائی جاتی ہے اور کون لگاتا ہے مگر حکومت کی بے خوفی دیکھیے کہ اسے یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ اس نے ان دو چینلوں کی نشریات سندھ میں کیوں بند کیں اور کس لیے بند کیں۔