کسی بادشاہ نے راستے میں آتے ہوئے سب سے پہلے ایک بڑھیا کو دیکھا تو اس کے پاؤں میں موچ آگئی۔  بادشاہ نے سوچا یہ سب صبح صبح بڑھیا کا منحوس چہرہ دیکھنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس نے بڑھیا کو دربار میں بلایا اور اسے سزائے موت دے دی۔ بڑھیا کو جب پھانسی دی جانے لگی تو اس نے صدر زرداری کی طرح دانت نکالنے شروع کر دیے۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیا اور اس نے بڑھیا سے مرنے سے پہلے ہنسنے کی وجہ پوچھی۔ بڑھیا بولی میں تمہاری بیوقوفی پر ہنس رہی ہوں اور سوچ رہی ہوں مجھ سے بڑا منحوس تو تو ہے جس کی منحوس شکل صبح صبح میں نے دیکھی اور مجھے موت کی سزا ہو گئی۔ بادشاہ نے اسی وقت بڑھیا کو معاف کر دیا۔

سو حساب ہے ہم خواہ مخواہ صدر زرداری کو پاکستان کیلیے منحوس قرار دے رہے ہیں، ان سے زیادہ منحوس تو پاکستان کیلیے رائس سے لیکر نیگروپونٹے تک سب امریکی اہلکار ہیں کیونکہ جب بھی وہ پاکستان آتے ہیں پاکستان کیلیے کوئی نہ کوئی مصیبت کھڑی ہو جاتی ہے۔ ابھی دو دن پہلے ہی نیگروپونٹے پاکستان آئے اور مصیب جماعت الدعوة پر ٹوٹ پڑی۔

اربوں روپے والا فلاحی ادارہ ایک اشارے سے بند کر دیا گیا۔ نہ اسمبلی میں اس پر بحث ہوئی نہ سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا گیا بلکہ یہ کاروائی شروع ہی تب کی جب اقوام متحدہ کی کمیٹی نے اسے دہشت گرد قرار دے دیا۔ اب تو ہم نے بالکل ہی گھٹنے ٹیک دیے ہیں اور اپنی سوچوں پر تالے لگا کر بیرونی احکامات کو اس طرح مان رہے ہیں جیسے ہم انہی کے غلام ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنے بڑے خیراتی ادارے کو یا تو حکومت اپنے کنٹرول میں لے لیتی، یا ان کی سکروٹنی کیلیے سرکاری ملازم بھیج دیتی یا پھر صرف اس کی انتظامیہ کو بدل دیتی۔ اس طرح ایک ایسے فلاحی ادارے کو جس پر ہزاروں غریبوں کا انحصار ہو اچانک بند کر دینا صرف عوام اور ملک کیلیے نقصان دہ ہو گا بیرونی طاقتوں کا تو کچھ نہیں بگڑے گا۔