قاضي حسين احمد کے اس بيان پرکہ ان کے اسامہ کے ساتھ روابط رہے ہيں ہمارے دو ساتھيوں نے ان کي کافي دھلائي کي ہے۔ شعيب صفدر صاحب اور نعمان صاحب نے اپني تحريروں ميں يہي ثابت کرنے کي کوشش کي ہے کہ قاضي صاحب نے غلط وقت پر غلط بيان ديا ہے اور جماعت اسلامي ايک دہشت گرد تنظيم ہے۔ ان کي تحريروں ميں صرف کمي اس بات کي ہے کہ انہوں نے اس بيان سے پہلے کے حالات کا مختصر جائزہ نہيں ليا اور نہ ہي انہوں نے دوسرے لوگوں سے اس کا موازنہ کيا ہے۔

اگر ہم چار پانچ سال پہلے کے حالات کا جائزہ ليں تو ہميں معلوم ہو گا کہ اس وقت مشرف سميت سب لوگوں نے طالبان کي حمائيت کي تھي اور يہ بھي ناممکن نہيں کہ اس دور کےجنرلوں کي تواتر سے اوسامہ سے ملاقاتيں رہتي ہوں گي۔ کيونکہ طالبان کي حکومت ميں اوسامہ برابر کے شريک تھے۔ ہم نے جب تک طالبان کا ساتھ ديا تب تک کے سارے سرکاري حکام طالبان اور اوسامہ کے ساتھ نہ صرف رابطے ميں تھے بلکہ ان کي پشت پناہي کررہے تھے۔بلکہ امريکہ ہي نے اسامہ کو ہيرو  بنايا اور طالبان کي بھي پشت پناہي کي۔ يہ تو برا ہو نائن اليون کا کہ جس نے بڑے بڑے نامي گرامي لوگوں کو يو ٹرن لينے پر مجبور کرديا۔ ان يوٹرن لينے والوں ميں قاضي صاحب بھي شامل تھے۔ 

ہمارا اپنا خيال يہ ہے کہ قاضي جن رابطوں کي بات کررہےہيں يہ اسي دور کي بات ہے نا کہ نائين اليون کے بعد کي۔ اب تو کسي کو يہ بھي معلوم نہيں کہ اسامہ زندہ بھي ہے کہ نہيں۔ اگر حقيقت کے ساتھ سوچيں تو ہم سب کو اس سوال کا جواب معلوم ہونا چاہيۓ کيونکہ جب اس کے بہت سارے قريبي ساتھي پکڑے جاچکے ہوں تو پھر يہ کيسے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اسامہ کے بارے ميں نہ بتايا ہو۔ لگتا ہے يہ کسي مصلحت کے تحت راز افشا نہيں کيا جارہا۔

مشرف حکومت نے اچھا کيا جو نائين اليون کے بعد يوٹرن لے کر پاکستان کو ايک بہت بڑي مصيبت سے بچا ليا مگر اس کے بعد انہوں نے اب تک کوئي ايسا قدم نہيں اٹھايا جس کي وجہ سے ہم مستقبل ميں اس طرح کے حالات سے بچ سکيں۔ ہم وہيں پر ہيں جہاں پانچ سال پہلے تھے۔ بلکہ ہم اس سے بھي نيچے گر چکے ہيں۔ اب ہم پر اگر مزيد دباؤ ڈالا جاۓ تو ہم اپنے ايٹمي پروگرام پر بھي يوٹرن لينے سے بھي نہيں ہچکچائيں گے۔

تصور کيجۓ ان کا جنہوں نے اپنے اصول کي خاطر اس اقتدار کي قرباني دے دي جس کيلۓ ہم ساري عمر دوسروں کي جوتياں چاٹتے رہتے ہيں۔ ہم نے اسي اقتدار کيلۓ يوٹرن ليا جس اقتدار کو انہوں نے اپني زبان کي پاسباني کيلۓ ٹھوکر مار دي۔ يہ تو ان کي مجبوري تھي کہ ان کے پاس کوئي تيسرا راستہ نہيں تھا۔

ايک منٹ کيلۓ سوجۓ کہ جب سو سال بعد مؤرخ ہماري تاريخ لکھے گا تو پھراس کتاب ميں کون مير جعفر ہوگا اور کون سراج الدولہ۔

اسلۓ قاضي کو صرف دوش نہ ديجۓ بلکہ ان سارے لوگوں کو ملزم گردانيۓ جنہوں نے طالبان کو حکومت بنانے ميں مدد دي اورجن کي وجہ سے وقتي طور پر افغانستان میں امن بحال ہوا اور ہيروئين کي پيداوار نہ ہونے کے برابر رہ گئ۔ ان کي حکومت کے خاتمے کے بعد حالات ويسے کے ويسے ہي ہیں بلکہ اس سے بھي بد تر ہو چکے ہيں۔ طالبانکا قصور يہ ہے کہ انہوں نے انتہا پسندي پر زيادہ زور ديا اور ميانہ روي اختيار نہ کرسکے جو اسلام کا اصول ہے۔

امريکہ نے جوکيا وہ اس کو کرنا چاہيۓ تھا کيونکہ يہ اس کا حق تھا اور اس کيلۓ بہتر تھا۔

مندرجہ ذيل لنکس سے آپ شعيب صفدر اور نعمان صاحب کے کالم پڑھ سکتے ہيں۔

شيعب صفدر کا کالم

نعمان کا کالم