ایکپریس کی خبر کیمطابق صوبائی وزیر جیل خانہ جات چوہدری عبدالغفور نے بنکاک سے آنے والے مہمانوں کو کسٹم کے بغیر لے جانے کی زبردستی کوشش کی۔ اس طرح خود بھی ذلیل ہوئے اور مہمانوں کو بھی رسوا کرایا۔ اگر ان کے مہمانوں کے سامان کی کسٹم حکام تلاشی لے لیتے تو کیا ان کی شان میں فرق آ جاتا؟
پاکستان کا کلچر ہی ایسا ہے کہ جب تک آپ قانون شکنی نہ کریں آپ طاقتور حاکم نہیں مانے جاتے۔ کسی بھی جگہ چلے جائیں انتظامیہ کا عام آدمی اور بااثر آدمی کیساتھ سلوک الگ الگ ہو گا۔ یعنی ہمارے پاکستان میں اس حدیث کی نفی کرنے میں کسی کو شرم نہیں آتی جس میں کہا گیا ہے کہ کسی عربی کو عجمی پو فوقیت حاصل نہیں ہو گی۔
پچھلی دفعہ ہمیں بھی کسٹم والوں نے آتے جاتے تلاشی کے مرحلے سے گزارا اور ہم نے کوئی شکایت نہیں کی۔ بلکہ کسٹم والوں نے ہمیں چند منٹ روکے بھی رکھا تا کہ ہم انہیں رشوت میں کچھ دیں مگر جب انہیں معلوم ہوا کہ ہم رشوت کی بجائے کسٹم دینے کو ترجیح دیں گے تو انہوں نے بناں کسٹم لیے ہمیں جانے کی اجازت دے دی۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے بااثر لوگ اپنے مہمانوں کو امیگریشن کی قطار سے نکال کر لے گئے اور ان کا سامان بھی کسٹم حکام نے چیک نہیں کیا۔
اگر یہی وزیر امریکہ یا یورپ کے دورے پر ہوتے تو انہیں جوتیوں تک کی تلاشی دینے پر کوئی اعتراض نہ ہوتا بلکہ واپسی پر اپنے غیرملکی دورے کو کامیاب دورہ قرار دیتے ہوئے بھی انہیں شرم نہ آتی۔
لگتا ہے وزیر صاحب پیپلز پارٹی کے ہیں جبھی تو وزیراعلی کی بجائے وزیراعظم سے شکایت لگا رہے ہیں۔ اگر ملک میں امیر غریب کیلیے انصاف یکساں ہوتا اور حکمران قانون پر عمل کرنے والے ہوتے تو وزیر موصوف کو اسی دن وزارت سے الگ کر دیتے بلکہ ان کِخلاف مقدمہ درج کراتے۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اشرافیہ کا عام آدمی پر تب تک رعب نہیں جمتا جب تک وہ قانون شکنی نہ کر لے اور وہ بھی سرعام۔
10 users commented in " وزیر قانون شکن "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاس خبر میں ۔ ۔خیر۔۔ کا صرف ایک ہی پہلو ہے۔ کہ ہمارے اداروں میں کچھ کچھ پکی نوکری والے اہلکار کچی نوکری کے حامل وزیروں سے بھی جواب طلبی کرنے لگے ہیں۔ گویا انہیں اب احساس ہو رہا ہے کہ وہ ریاست کے ملازم ہیں۔ حکومت یا وزیروں کے ذاتی ملازم نہیں۔
اب اللہ کرے۔ مذکورہ اہلکاروں کے نزدیک واقعی نیک نیتی مد نظر رہی ہو اور یہ سارا جھگڑا وزیر موصوف سے کسی پرانی چپقلش کا نتیجہ نہ ہو۔
جب وزیر شذیر اپنے منصب سے گر کر اس طرح کی کم ظرف حرکتیں کرنے لگیں۔ تو عام کیا کچھ نہ کرنے کے لئے کدھر جائیں۔؟
ھمارے وزیر ماھان
سب کے مجسمےبنا کر چوک میں کھڑے کرنے چاھیے
مگر جو عوام نے ان کا حال کرنا ھے وہ نا قابل تحریر ھے
جاوید صاحب اب “احساس اجاگر ہو رہا ہے“ والی بات تو مت کریں نا
ایک آدھا الٹی کھوپڑی کا تو ہر دور میں ہوتا ہی ہے 😀
سلام۔
آپ نے یہ قصیدہ گوئی کہیں صرف اس وجہ سے کرنا ضروری تو نہیں سمجھی کہ اس بچارے کے تعلق کا آپ کو احساس ہوگیا کہ پی پی پی سے ہے۔
وی آئی پی کلچر اور یہ قانون شکنی، یہ تو ہر دور کا رونا رہا ہے جی، کیا ہو سکتا ہے؟ ہاںیہ بات دلچسپ ہے کہ امریکے میںجوتے بھی اتارتے ہیں، بلکہ کھانے کو بھی تیار رہتے ہیں اور یہاںیہ کیا کیا گل کھلاتے ہیں۔ دوغلے پن کا مظاہرہ، اپنے ملک میںقانون کا احترام نہ کرنا گویا ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔
آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم ڈفر صاحب!
اللہ کرے یہ ۔ ۔ ایک آدھ الٹی کھوپڑی۔ ۔ جو دوسرے لفظوں میں ۔صحیح کھوپڑی۔ کہلانے کے حقدار ہیں۔ ان میں بے تحاشہ اضافہ ہو کہ وزیروں شزیروں کو وزارت لیتے وقت اپنے فرائض منصبی یاد رہیں۔
چوہدری حشمت صاحب!
آپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں پیپلز پارٹی سے چڑ ہے۔ اور نواز مسلم لیگ سے محبت ہے ۔ تو جناب چوہدری صاحب! کم از کم میرے نزدیک جو بھی ملک قوم کے کے لئیے نقصان دہ ہو گا ۔ملک و قوم کے خلاف وہ یا انکے وزیر شزیر الٹی حرکتیں کریں گے۔ ہم اس کے خلاف ہونگے ۔خواہ وہ میرا کوئی سگا عزیز ہی کیوں نہ ہو ۔ جو غلط ہے وہ غلط ہے۔ اور ملک و قوم کا مفاد سب پہ بر تر ہے
یہ وزیر مسلم لیگ نواز کا ہے
اور رائے ونڈ سے الیکشن جیتا تھا
میاں صاحب کا چہیتا ہے۔۔۔
تو چوہدری حشمت (وارث ڈرامے والے ؟؟؟) صاحب ریکارڈ درست کرلیں۔۔۔
😀
اور یہ بھی دیکھئے
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/05/090522_shebaz_order_sen.shtml
شاید ہمارے حکمرانوں میں شرم واپس آرہی ہے۔۔۔
کم ازکم شہباز شریف کی حد تک۔۔۔۔۔
ہمیں کہیں حسن ظن یا خوش فہمی تو نہیںہونے لگی کہ حکومت ہمارا بلاگ باقاعدگی سے پڑھ رہی ہے کیونکہ یہ دوسری دفعہ ہے کہ ادھر ہم نے بلاگ لکھا ادھر حکومت نے ایکشن لے لیا۔ ویسے حقیقت اس کے الٹ ہے کیونکہ ہمارے قارئین کی تعداد گنی چنی ہے اور یہ ابھی اتنا مشہور نہیں ہوا کہ حکمران اسے پڑھنے لگیں۔
سلام۔
جناب گوندل صاحب۔
تسی گل تے بڑی سونی کی تی۔ کاش سارا۔۔ اے ممکن نہیں ۔۔۔ ادھا ۔۔ اے بھی ممکن نہیں ۔۔ تے فر چوتھائی چلو کاش انا پاکستان ہی آپ کی طرح سونچنے لگے۔ مگر حقیت اے نہیں۔
ہمارے پاس ایک ڈرئیور تھا ، ایک دن بڑے ترنگ میں تھا کہنے لگا یارا غلط کام تو غلط ہے مگر ابھی یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ میرا بھائی قتل کرکے ائے اور ہم اس کو پولیس کے حوالے کردے ۔۔ او آخر ہمارا بھائی ہے۔
میں ایک دفع ایک نیول افسر کے ساتھ بیٹھا تھا، کہنے لگا یا 45 نمبر دے چار کیسس ہوں تے کینو سکٹ کرئے ، کی کرئے پنڈ دا حق پہلے ہے۔
یاراں کیونو کیونو رؤ گے ۔ اے سارے اپنے آپ صحیح سمجھدنے ۔
جعفر۔
مزاح ایا ۔۔۔ تسی بھی کڑا کریکٹر یاد کرا دی تے۔
ویسے مجھے بھی کچھ شک تھا کہ بندا نواز دا ہی ہے۔
مگر شہباز دی خیر ہوئے۔
Leave A Reply