خدا نے ہماری دعائیں قبول کیں اور جسے عالمی مبصرین چیونٹی کہتے تھے اس نے ہاتھی کو ڈھیر کر دیا۔ ایک مدت کے بعد شاہد آفریدی نے نپی تلی بیٹنگ کی اور پھل بھی پایا۔ شعیب ملک بھی خوب سمجھ بوجھ سے کھیلا۔ اس کے علاوہ کامران اکمل، یونس خان اور عبدالرزاق بھی اچھا کھیلے۔ لیکن یہ کامران اکمل اور شاہد آفریدی ہی تھے جنہوں نے شروع میں پاکستان کا رن ریٹ بڑھایا۔ باؤلنگ میں توقع کے مطابق شاہد آفریدی، سعید اجمل اور عمر گل نے مزے کرا دیے اور جیک کالیس کے چونسٹھ رن کے باوجود جنوبی افریقہ ایک سو انچاس رن نہ بنا سکا۔
اب فائنل چاہے ویسٹ انڈیز سے ہو یا سری لنکا سے پاکستان کے بیٹسمینوں اور باؤلروں یعنی پوری ٹیم کو پھر سے جان کی بازی لگا کر کھیلنا ہو گا۔ کیونکہ پاکستان کی جیت ہی عوام اور حکومت دونوں کیلیے خوشی کا پیغام لائے گی۔ کراچی والے طویل لوڈشیڈنگ کو بھول جائیں گے، سوات کے مہاجرین کم از کم ایک دن خوشی منا سکیں گے، حکومت ملک میں چھٹی کا علان کر کے ایک دن تو سکون کی نیند سو پائے گی۔
فائنل جیتنے کیلیے وہی سٹریٹیجی اپنانی ہو گی جو سیمی فائنل میں اپنائی یعنی نپے تلے انداز سے جارحانہ بیٹنگ اور باؤلنگ۔ اسے بدقسمتی کا نام دے لیں یا جلد بازی یا اوچھا پن کہ پاکستان اس سے قبل کئی مواقع پر فائنل تک پہنچ کر ٹرافی سے محروم رہا۔ ٹونٹی ٹونٹی کے پچھلے ورلڈ کپ میں مصباح کی ذرا سی غلطی نے سارا کھیل بگاڑ کے رکھ دیا۔ امید ہے اس دفعہ ایسا نہیں ہوگا۔
جیو کے مطابق سنا ہے پاکستان ٹیم کے کوچ اور کپتان میں ہم آہنگی نہیں ہے اور ٹیم میں مجموعی طور پر بے اتفاقی بھی پائی جاتی ہے۔ مگر اس کے باوجود اتنا اچھا کھیل پیش کرنا اور فائنل تک پہنچنا معجزے سے کم نہیں ہے۔
ہماری خواہش ہے کہ فائنل میں پاکستان کا مقابلہ سری لنکا کی بجائے ویسٹ انڈیز سے ہو کیونکہ سری لنکا کے ملنگا، مینڈس، جے سوریا اور دلشان بھرپور فارم میں ہیں اور ان سے جیتنا ویسٹ انڈیز کے مقابلے میں تھوڑا مشکل ہو گا مگر ناممکن نہیں۔