ہمیں بلاگ تحریر کرتے ہوئے آج پورے چار سال ہو گئے ہیں۔ پہلے کی طرح ہم سالگرہ پر اپنے محسن قدیر صاحب کا پھر سے شکریہ ادا کریں گے جنہوں نے بلاگنگ شروع کرنے میں ہماری مدد کی۔
اس سال کو بھی ہماری بلاگنگ کا اسی طرح تسلسل کہا جائے گا جس طرح موجودہ حکومت جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا تسلسل ہے۔ یعنی ہم نے وہی سیاست جیسے پھیکے موضوع کو اپنائے رکھا۔ درمیان میں مذہب پربھی لکھا اور قارئین سے خوب جھاڑ بھی کھائی مگر بعد میں سوچا چلیں جس طرح ہم نے قارئین کے تبصروں سے سیکھا باقی پڑھنے والے بھی ضرور سیکھیں گے۔
اس سال کی سب سے بڑی کامیابی بلاگ منظرنامہ کا ایوارڈز کا اجرا تھا یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد منظرنامہ کو نظر لگ گئی اور بلاگ نے زیادہ وقت منظر سے غائب رہنا شروع کر دیا۔ ہمیں فعال ترین بلاگ کا ایوارڈ ملا۔ اس کا مطلب ہے جو ہمارے ذہن میں آیا ہم نے تسلسل کیساتھ لکھا چاہے وہ قارئین کی نظر میں معیاری تھا یا غیرمعیاری۔
ہم جب پچھلے چار سالوں میں لکھی جانے والی تحاریر پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ نوجوانوں کیلیے اس میں یہی سبق پوشیدہ ہے کہ جہد مسلسل ہی کامیابی کی سیڑھی ہے۔ ہم اب تک ایک ہزار ایک سو سے زیادہ تحاریر لکھ چکے ہیں اور ان پر چار ہزار چار سو سے کچھ زیادہ تبصرے ہو چکے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہماری سائٹ پر اب تک پچھتر ہزار سے زیادہ قارئین وزٹ کر چکے ہیں ان میں ہمارے مستقل قارئین کے وزٹ سب سے زیادہ ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مستقل قارئین کیساتھ ساتھ اب لوگ اردو گوگل سرچ میں بھی ہماری سائٹ دیکھ کر وزٹ کر رہے ہیں۔
یہ سال اردو بلاگنگ کیلیے بہت مفید رہا اور بہت سے نئے بلاگ منظرعام پر آئے۔ اس طرح اردو کی ترویج کی مایوسی اب امید میں بدلنے لگی ہے۔ اگر یہی رفتار رہی تو ایک دن اردو بلاگرز کی آواز بھی ایوانوں تک پہنچنا شروع ہو جائے گی۔
ہم آخر میں اپنے قارئین کا شکریہ ادا کرتے ہیں جن کی حوصلہ افزائی نے ہمیں بلاگ لکھنے پر اکسائے رکھا یہ الگ بات ہے کہ جتنا وقت ہم نے بلاگنگ کو دیا اس کا رزلٹ ویسا نہیں نکلا۔